ایک زمانے میں ’سازشی نظریہ‘ کی اصطلاح سنتے ہی ذہن میں سماج سے کٹے ہوئے کسی شخص کی تصویر بنتی تھی جو اپنی ماں کے گھر کے تہہ خانے میں رہ رہا ہے، اس نے سر پر ٹِن کی بنی ٹوپی پہنی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنے دماغ کو کنٹرول کرنے والی لہروں سے خود کو محفوظ رکھ سکے، جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقتول امریکی صدر کینیڈی کو دراصل دو مختلف بندوق برداروں نے ہلاک کیا تھا۔
مشہور سازشی نظریات میں ایسی چیزیں شامل ہوا کرتی تھیں جیسا کہ 1969 میں اپالو 11 کے چاند پر اترنے کو امریکی حکومت کی جعلی سازی قرار دینا جس کے ذریعے وہ مصنوعی طور پر روس کے خلاف خلائی مقابلہ جیتنا چاہتے تھے۔
ان نظریہ سازوں نے ’حقائق‘ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ تصاویر میں آسمان پر ستارے نظر نہیں آ رہے، ایسا لگتا تھا کہ امریکی پرچم ہوا میں لہرا رہا ہے، جبکہ یہ دونوں چیزیں چاند پر ممکن ہی نہیں، اور یہ کہ خلابازوں کے سائے غلط طرف تھے۔
اس کے علاوہ طویل عرصے سے جاری سازشی نظریات ہیں جیسے کہ ایلومیناٹی ’Illuminati‘ جو کچھ لوگوں کے خیال میں عالمی حکومتوں کو گراتی ہے۔
1975 میں رابرٹ اینٹن ولسن اور مائیکل شیا نے اپنی طنزیہ سائنس فکشن ٹریلوجی لکھی، جس کا نام تھا دی ایلومیناٹس (Illuminatus)، جس نے اس وقت کے مروجہ سازشی نظریات کی انتہائی خوبصورتی سے منظر کشی کی ہے۔
ایک انتہا یہ کہ بہت سے لوگوں سمجھتے ہیں کہ 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر نائن الیون کے حملے سرے سے ہوئے ہی نہیں یا مختلف انداز میں ہوئے، ان کے مطابق امریکی حکومت نے یہ کام خود کیا تھا۔
تاہم گذشتہ چند برسوں کے دوران بالخصوص کرونا وبا کے بعد ’سازشی نظریے‘ کی اصطلاح قدرے مختلف تاثر کی حامل ہو چکی ہے۔
وبائی مرض نے ہماری زندگیوں میں حکومتی مداخلت کو اب تک کی انتہائی حد تک پہنچایا، اس کے ساتھ ساتھ ایک بے مثل تیز رفتار جوابی کارروائی کی صورت میں ویکسینیشن کا عمل ہوا اور سوشل میڈیا کے انتہائی مقبول زمانے میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔
سرکاری ذرائع سے فراہم کردہ معلومات کے علاوہ بہت سی معلومات نکلیں اور بجلی کی رفتار سے آگے پھیلتی گئیں۔
ایک پرانی کہاوت ہے کہ سچ کے جوتے پہننے سے پہلے جھوٹ دنیا بھر میں آدھا سفر طے کر چکا ہوتا ہے اور سوشل میڈیا کے دور میں ایسا دوہری رفتار سے ہو جاتا ہے۔
کرونا کے بارے میں بے چینی کا دائرہ کرونا ویکسین تیار کرنے کی رفتار اور اس کے اچھی طرح آزمودہ ہونے کے متعلق فکرمندی، ’ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ،‘ کا شکار افراد سمیت ان لوگوں تک پھیلا ہوا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ کرونا کو لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد طاقت ور ممالک کی حکومتوں کا عوام کو گھروں میں بند رکھنا اور اپنے ملکوں میں لاک ڈاؤن لگانا تھا۔
تقریباً اسی وقت کے قریب ایسا لگتا ہے سازشی نظریات کے بارے میں عوامی تاثر تبدیل ہوا ہے۔
بلاشبہ ہر کوئی اپنی رائے پیش کر سکتا ہے چاہے وہ کتنی ہی عجیب و غریب کیوں نہ ہو۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ لارڈ لوکان اور ایلوس پریسلے نے جان ایف کینیڈی کو قتل کیا اور ’شیرگر‘ نامی گھوڑے پر فرار ہو گئے (1983 میں چوری ہونے والا ریس کا یہ گھوڑا جسے پھر کبھی نہیں دیکھا گیا) تو ٹھیک ہے، یہ آپ کا نقطہ نظر ہے۔
تاہم بڑے پیمانے پر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ کرونا کے دوران سرکاری موقف پر سوال اٹھانا دراصل نقصان دہ ثابت ہوا۔
بحران کے چند ماہ بعد اگست 2020 میں عالمی ادارہ صحت نے کرونا کے بارے میں آن لائن غلط معلومات کے سونامی کو ’Infodemic‘ کا نام دیا۔
اس وقت ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈینام گیبری ایسس نے کہا تھا کہ ہم محض وائرس سے نہیں لڑ رہے۔
’ہم ٹرول اور سازشی نظریہ سازوں سے بھی لڑ رہے ہیں جو غلط معلومات کو آگے پھیلاتے ہیں اور جوابی کارروائیوں کو متاثر کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔‘
خدشہ تھا کہ اس طرح کے جھوٹے نظریات لوگوں کو ویکسین لگوانے کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے، درحقیقت جس طرح کرونا نے عوام میں تقسیم پیدا کی کوئی دوسرا سازشی نظریہ بس ایسی خواہش ہی کر سکتا ہے۔
لیکن چاہے کرونا ہو، چاند پر اترنا ہو یا جیسا کہ ڈیوڈ لوک کا ماننا ہے کہ شاہی خاندان درحقیقت ایکسٹرا ڈائمینشنل ہیومنائیڈ چھپکلی ہے، ہم سازشی نظریات پر یقین کیوں رکھتے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب 30 نومبر کو سامنے آنے والی اپنی تازہ کتاب ’کانسپیرسی‘ Conspiracy میں مائیکل شرمر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
شیرمر امریکہ میں سکیپٹک میگزین کے پبلشر ہیں جو سائنس اور منطق کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سازشی دعوؤں اور نظریات کی بیخ کنی کی کوشش کرتا ہے۔
شیرمر کے مطابق اگرچہ ’سازشی نظریہ ساز‘ کی اصطلاح نے کرونا وبا کے دوران بہت زیادہ توجہ حاصل کی لیکن یہ انتہائی قدیم ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریہ کے قیام سے لے کر قدیم روم تک سازشی نظریات پھیلے ہوئے ہیں اور ایسا نہیں کہ آج وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔
لیکن تب وہ سینہ بہ سینہ گپ شپ کے ذریعے پھیلتے تھے، اس کے بعد کتابوں کے ذریعے، پھر اخبارات، پھر ریڈیو، پھر ٹیلی ویژن، اور یہ سب ذرائع چند لمحات میں سازشی نظریات کو لاکھوں تک پھیلانے والے انٹرنیٹ کے مقابلے میں انتہائی سست رو دکھائی دیتے ہیں۔
’جان ایف کینڈی کے قتل کو سازش ٹھہرانے والے نظریہ ساز کئی دہائیوں تک ہوٹل کے چھوٹے سے کانفرنس رومز میں چند درجن لوگوں، میموگرافڈ نیوز لیٹرز اور خود شائع کردہ اپنی کتابوں کے ساتھ ملتے اور بہت کم تعداد میں پیروکار رکھتے تھے۔
’آج آپ کو راتوں رات لاکھوں پیروکار مل سکتے ہیں اور یہاں تک کہ ایسی چست ویڈیوز بھی تیار کر سکتے ہیں جو دانے دار نیوز لیٹرز سے کہیں زیادہ زبردست ہوتی ہیں۔
’اس کی اچھی بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اصل بات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے غلط عقائد کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘
لیکن پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ’سازش‘ سے ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اور محض اس وجہ سے کہ ہم کسی چیز پہ یہ لیبل لگا دیتے ہیں کیا اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ سچ نہیں ہے؟
شیرمر کہتے ہیں کہ ’سازش کا مطلب ہے جب دو یا دو سے زائد افراد یا کوئی تنظیم کسی تیسرے فریق یا کسی دوسری تنظیم کے خلاف کوئی خفیہ منصوبہ بندی کرے جس کا مقصد غیر قانونی یا غیر اخلاقی فائدہ حاصل کرنا یا اقتدار حاصل کرنا ہو۔
’سازشی نظریہ ایسے واقعات کی وضاحت ہوتی ہے جن میں مندرجہ بالا عناصر شامل ہوں۔ کچھ سازشی نظریات سچے ہیں، کچھ غلط ہیں جبکہ زیادہ تر کے متعلق وثوق سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ’سگنل ڈیٹیکشن پرابلم‘ ہے۔ سچ اور جھوٹ کو پہنچانے کے لیے وہ مندرجہ ذیل منطقی راستہ پیش کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سازشی نظریہ جو سچا ہو اور آپ اسے صحیح طور پر پہچان لیں۔ صحیح
ایک سازشی نظریہ جو سچا ہو اور آپ اس کی شناخت میں ناکام رہیں۔ غلط
ایک سازشی نظریہ جو غلط ہو اور آپ اسے سچ بتائیں۔ مثبت طور پر غلط
ایک سازشی نظریہ جو غلط ہو اور آپ صحیح پہچانتے ہوئے غلط قرار دیں۔ صحیح رد
شیرمر کہتے ہیں ’میرے خیال میں ہم احتیاط برتتے ہوئے ’مثبت طور پر غلط‘ کا رجحان زیادہ رکھتے ہیں۔ بعد میں مسائل کا سامنا کرنے سے پہلے کی گئی احتیاط بہتر ہے۔‘
اب جب کہ ’سازشی نظریہ سازوں‘ کو گذشتہ تین برس کے دوران بہت زیادہ برا بھلا کہا گیا اور اپنے تضحیک آمیز استعمال کے معاملے میں یہ لیبل واقعی 1950 اور 1960 کی دہائی خاص طور پر 1963 میں کینیڈی کے قتل کے بعد کی سطح پر جا پہنچا ہے۔
شیرمر کا کہنا ہے کہ ’جے ایڈگر ہوور اور ایف بی آئی تحقیقات سے صدر کے قتل کے سازشی نظریات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔
’اس لیے نہیں کہ واقعی کوئی سازش تھی بلکہ اس لیے کہ یہ نظریہ کیوبا اور روسیوں کے ساتھ تصادم کا باعث بن سکتا تھا اور نئے صدر جانسن خارجہ تعلقات کو ہموار رکھنے کے خواہشمند تھے۔
’دوسری جنگ عظیم سے پہلے سازشی نظریہ ساز کی اصطلاح لوگوں کی اکثریت پر صادق آتی تھی کیونکہ سازشوں پر یقین عام علم کا حصہ اور عمومی ادراک میں شامل تھا۔
’ہر کوئی 'جانتا تھا' کہ پہلی جنگ عظیم، گریٹ ڈیپریشن، وبائی امراض، صدارتی انتخابات، اور اسمبلی کے اہم فیصلوں جیسے بڑے واقعات کو ایلومناٹی اور ایسی دیگر تاریک قوتوں کے ذریعے متاثر کیا جاتا ہے۔
’سازشیں ہمیشہ مرکزی دھارے میں موجود رہی ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا کہ ان پر یقین متزلزل ہونے لگے۔
’میں بس یہ چیز واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ واقعی سازشیں ہوتی ہیں اور یہ سمجھنا خلاف عقل نہیں کیونکہ کم از کم کچھ سازشی نظریات سچے ہوتے ہوتے ہیں۔‘
حکام پر عدم اعتماد کرنے کی ایک بالکل منطقی وجہ ہے، ان میں سے کافی لوگ واقعی ہمارے ساتھ ایسے کام کرنے کی سازش کرتے ہیں جو غیر قانونی یا غیر اخلاقی ہوں اور اسی وجہ سے ہم ان کے معاملے میں ہمیشہ بدتر سوچنے لگتے ہیں۔
کسی سازشی نظریے کو درست ماننا کوئی بہت زیادہ گھاٹے کا سودا نہیں جب ایسا حقیقت میں نہ ہو، جب کہ اپنے خلاف ایک حقیقی سازش کو نظر انداز کرنا انتہائی مہنگا پڑ سکتا ہے۔‘
سوشل میڈیا کے عروج کے سبب مرکزی دھارے پر عدم اعتماد بڑھا ہے اور اب لوگ خبروں کے غیر سرکاری ذرائع اور تبصرہ نگاروں کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔
کرونا وبا کے دوران ویکسین لگوانے سے انکار کرنے والوں کی طرف سے بار بار کی جانے والی چیخ و پکار میں سے ایک یہ تھی کہ ’میں نے خود تحقیق کی ہے، مرکزی دھارے کے میڈیا پر بھروسہ نہ کریں۔‘ شیرمر کے بقول یہ ’تشویش ناک‘ ہے۔
شیرمر کہتے ہیں ’پارلیمان، ایوان صدارت اور اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مرکزی دھارے کے میڈیا پر عدم اعتماد پریشان کن ہے اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اب یہ چیز پہلے سے زیادہ شدت سے موجود ہے اور یقینی طور پر یہ سوشل میڈیا کی تقسیم کا نتیجہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنی شناخت ’تفتیش کار،‘ ’محقق‘ یا ’غیر جانبدار سکالر‘ جیسے لیبلوں سے کرتے ہیں، جنہیں وہ یونیورسٹیوں، قابل عزت اخبارات یا ٹیلی ویژن نیوز نیٹ ورکس کے معتبر اداروں سے الگ سمجھتے ہیں۔
شیرمر مزید کہتے ہیں ’اس طرح کے آزاد مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے تمام علمی تعصبات کے تابع ہوتے ہیں جن کا شکار مرکزی دھارے کے ادارے ہوتے ہیں (کسی طرف میرا جھکاؤ، اپنے حق میں درست ثابت ہونے والے حقائق پر توجہ مرکوز رکھنے اور خود کے ہمیشہ درست ہونے کے تعصبات) جہاں کوئی حقیقت کی تلاش کے لیے مواد کا جائزہ لینے، اقتباس کی تصدیق اور ترمیم کا نہیں سوچتا۔
’کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ غلط ہیں، غیر اہم ہیں، یا خود ساختہ محقیق یا سائنس دان بنے پھرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے دنیا کی تاریخ میں کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ وہ کسی فرقے میں شامل ہوئے، وہ ایک ایسے گروہ میں شامل ہوئے جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں مدد کرے گا (یا ان کے مالی حالات، یا محبت کے معاملات یا جو کچھ بھی ہے اسے بہتر کرے گا)۔ یہ محض بعد میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ ہم غلط تھے۔‘
شیرمر کی کتاب سازشی نظریات کی ثقافت پر انتہائی اہم کتابX-Files: The Truth is Out There سے ایک جملہ مستعار لیتے ہوئے ان وجوہات کا پتہ لگاتی ہے جن کی بنا پر ہم سازشی نظریات پر یقین کرنے کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔
ہمارا ایسا سوچنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں صاحب اقتدار لوگوں پر ہمارا اعتماد کم ہوا ہے۔
لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ خاص طور پر ہمارے سیاستدان سچ بولتے ہیں۔ اگر وہ ان پر یقین نہیں رکھتے تو پھر دوسرے ذرائع کا رخ کرتے ہیں۔ اور یہ وہ جڑ ہے جہاں سے سازشی نظریات جنم لیتے ہیں۔
شیرمر کے مطابق جواب بہت سیدھا ہے۔ اگر سب سچ بولتے اور ہم سب کو یقین ہوتا کہ ایسا ہی ہے تو سازشی نظریات کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔
مائیکل شرمر کی تحریر’ کانسپریسی: وائے دی ریشینل بیلیو دی ار ریشینل‘ جان ہاپکنز یونیورسٹی پریس سے 30 نومبر کو شائع ہوئی۔
© The Independent