ڈرنا کیوں ضروری ہے؟ ڈراؤنی فلموں پر ایک نظر

ان خوف ناک فلموں میں چرچراتے دروازوں کا بہت اہم کردار ہے، جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اتنی بڑی حویلی والے اگر دروازے کی چولوں میں تیل ڈلوا دیتے تو اتنا مسئلہ نہ پیدا ہوتا۔

فلم چھوری کا ایک ڈراؤنا منظر (Abundantia Entertainment)

کبھی کبھار ذہن میں آتا ہے کہ آخر یہ خوف ناک اور دل دہلا دینے والی فلمیں بنانے والے فلم بینوں کو سمجھتے کیا ہیں؟

ان کی کہانیاں صرف ایک ہی نکتے پر گھومتی رہی ہیں کہ بس فلم بینوں کو کوئی بھی فارمولا کہانی دکھا کر ڈرانا اور سہمانا ہے اور ساتھ ان کو تاکید بھی کرنی ہے کہ ’ڈرنا ضرور ہے۔‘

ان کے ذہنوں پر یہ سوچ حاوی رہتی ہے کہ خوف ناک اور عجیب و غریب گیٹ اپ کر کے‘ کیمرے کو آڑھا ٹیڑھا گھوما پھرا کر، رونگٹے کھڑی کرتی بیک گراؤنڈ موسیقی اور پھر رات کا منظر دکھا کر بس کام چلا لیا جائے۔ یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھولی بھٹکی آتما کسی کے جسم میں گھس کر وہ دھماچوکڑی کرتی ہے کہ بس فلم کے ڈھائی گھنٹے اسی کی نذر ہو جاتے ہیں اور باقی آدھا گھنٹہ ماضی کے رازوں پر سے پردہ اٹھاتے گزر جاتا ہے۔

ویسے یہ ’آتما‘ والا فارمولا 80 کی دہائی کی فلموں کا محبوب موضوع ہوتا تھا۔ اس کے تانے بانے 1958 کی مشہور فلم ’مدھومتی‘ سے ملتے ہیں جہاں ایک اچھی روح اپنے قاتل سے انتقام لینے کے لیے ڈرامائی موڑ کے ساتھ زمین پر آ جاتی ہے۔ اب یہ فارمولا بعد کی کئی فلموں میں آزمایا گیا جیسے ’قرض‘ اور پھر ’اوم شانتی اوم۔‘

’روح والا ٹچ‘ بالی وڈ میں خاصا پرانا ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال 1949 کی فلم ’محل‘ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جب مدھوبالا کو فلم کے ہیرو اشوک کمار بھٹکی ہوئی روح سمجھ کر سہمے سہمے رہتے ہیں۔

کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے اور جدت دکھانے کے لیے کسی گڑیا میں اس آتما کو گھسا دیا جاتا یا پھر یہ آتما صاحبہ کسی ویران اجاڑ گھر پر قبضہ کر لیتیں جہاں سیر سپاٹے یا پھر مستقل طور پر آنے والوں کے لیے ایک ایک دن کسی عذاب سے کم نہ ہوتا۔ جہاں تک گڑیا میں آتما کی انٹری کا تعلق ہے تو لگتا یہی ہے کہ ہالی وڈ کی ’چائلڈز پلے،‘ ’اٹ‘ اور ’اینا بیل‘ کا آئیڈیا بالی وڈ سے ہی اڑایا گیا۔ 80 اور90 کی دہائی میں ہیرو اور ہیروئنز کا گروپ سیر کے لیے دور دراز تفریح مقام کا جب رخ کرتا ہے تو ان کے ساتھ ساتھ وہ مخلوق بھی آ جاتی ہے جن کی خوشیوؤں میں بھنگ ڈال دیتی ہے۔

یا پھر یہ سمجھیں کہ وہ بیٹھی ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ گروپ پہنچے اور وہ سب کام کاج چھوڑ کر انہیں ستائے یا پھر ڈرائے۔ کئی فلموں کے دی اینڈ پر پہنچنے کے بعد یہ سوال بھی ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے کہ بھئی اس تخلیق میں ڈرنے والی کون سی بات تھی؟

پھر سمجھ میں تو یہ بھی نہیں آتا کہ یہ ساری ہارر فلمیں سردیوں میں ہی کیوں بنتی ہیں۔ جب کوئی الاؤ جلا کر مطالعہ میں مصروف ہوتا ہے تو ایسے میں کہیں سے کوئی گھومتی گھماتی بد روح یا چڑیل آ دھمکتی ہے۔ ان ہارر فلموں کو دیکھ کر ایک نتیجے پر تو ہم پہنچے کہ بھوت، بدروحیں یا چڑیلیں صرف سرد موسم میں فعال ہوتی ہیں۔

یقینی طور پر گرمیوں کی راتیں چھوٹی ہوتی ہیں تو ممکن ہے کارروائی ڈالنے میں انہیں زیادہ وقت لگتا ہو اسی لیے فلموں میں جاڑا دھوم مچاتا ہوا تو آتا ہے لیکن ساتھ بدروحوں کو بھی ساتھ لاتا ہے۔

ان ہارر فلموں میں عموماً پرانی اور خاندانی کھنڈر نما حویلی کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور پھر جب کسی کا بدروح سے ٹاکرا ہوتا ہے تو اس کا فیورٹ مکالمہ بولا جاتا ہے، ’میں نے وہاں کسی کو دیکھا ہے۔‘

اب یہ بات ہماری نازک اندام ہیروئن کہتی تو ہیرو ایک ادا سے اسے بانہوں میں بھرتے ہوئے کہتا کہ ’ارے جانم تمہارا وہم ہو گا۔ یہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن ہیروئن کا یہ وہم تھوڑی ہوتا بلکہ سکرپٹ رائٹر کا شاہکار ہوتا جس کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی۔ ویسے یہ مکالمہ ہیروئن ایسے وقت میں ادا کرتی یا تو وہ جب صابن کے اشتہار کی ماڈل کی طرح نہا رہی ہوتیں یا پھر لباس تبدیل کر رہی ہوتی۔

ان خوف ناک فلموں میں بدروحوں کے بعد دروازے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ ان کی چولیں اس قدر ہلی ہوتیں کہ جب انہیں کھولا یا بند کیا جاتا تو ’چرچر‘ کی آواز اور زیادہ ماحول کو ڈراؤنا بنا دیتی ہے۔ یقین جانیں کہ ان فلموں کو دیکھ دیکھ کر گھر کے دروازے میں سے بھی اگر ایسی آوازیں آنا شروع ہو جائیں تو ایک خوف طاری ہو جاتا ہے، بالخصوص رات کے وقت ان دروازوں سے باہر نکلتے ہوئے تواتر کے ساتھ ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ ’پیچھے دیکھو!‘

دروازے کے لیے ترکھان کی طرح پلمبر بھی ان فلموں میں دونمبری کام دکھاتا۔ وجہ نل سے بار بار پانی کا ٹپکنا اور رات میں تو اس کی ٹپ ٹپ کی آواز اور زیادہ خوف ناک بن جاتی۔

کسی بھی ویران مکان یا حویلی میں ادھیڑ عمر کا چوکیدارہوتا جس کے ہاتھ میں لالٹین ہوتی جو اندھیرے میں اس کے چہرے کو اور زیادہ خوف ناک بناتے ہوئے دیکھنے والوں کی روح تک پر کپکپی طاری کر دیتی۔

بھارت میں ہارر فلمیں بنانے کا ٹھیکہ رامسے برادرز کے پاس رہا ہے جنہوں نے ویرانہ، پرانا مندر، ’گیسٹ ہاؤس،‘ ’پرانی حویلی‘ یا پھر ’دو گز زمین‘ جیسی فلمیں بنا کر ڈرانے کی پوری توانائی استعمال کی۔ حد تو یہ ہے کہ بڑی سکرین پر فلم بینوں کے رونگٹے کھڑے کردینے کے بعد ان بھائیوں نے چھوٹی سکرین پر ’زی ہاررشو‘ کے ذریعے بھی چڑیلوں، بھوتوں اور بدرحوں کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔

پاکستان میں ہدایت کار سعید رضوی نے 90 کی دہائی میں ’طلسمی جزیرہ‘ اور ’سر کٹا انسان‘ بنا کر خوف زدہ کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ خوف ناک ڈروانی فلموں کے لیے جو امور اہم ہوتے ہیں وہ ان فلموں میں کہیں نظر نہ آئے۔

سعید رضوی نے اس سلسلے میں سپیشل ایفکٹس کا بھی سہارا لیا لیکن مجال ہے جو کوئی ڈرا ہو۔ ان سے بہتر تو 1964 میں آنے والی ’دیوانہ‘ اور پھر 1967 کی ایک اور ہارر فلم ’زندہ لاش‘ رہیں۔ کاش سعید رضوی یہ جان لیتے کہ سپیشل ایفکٹس کے بجائے اچھا سکرپٹ، اعلیٰ اداکاری اور کیمرا ورک ہو تو دیکھنے والوں کو سہمایا جا سکتا ہے۔

بہرحال اب سمارٹ دور ہے تو بھوت اور چڑیلوں میں بھی کچھ کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس سلسلے میں ہدایت کار پریا درشن کو بھی داد دینے کو دل چاہتا ہے جنہوں نے ’بھول بھلیاں‘ کے ذریعے ایک نئی بحث کا آغاز کرایا۔

پریا درشن نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کوئی بھوت پریت نہیں ہوتا کیونکہ ان کی ’منجولیکا‘ دراصل کوئی بدروح نہیں تھی بلکہ شناخت کی خرابی کی شکایت رکھنے والی ایک خاتون تھی۔ مگر ’بھول بھلیاں‘کے اگلے سیکوئل میں پریا درشن نے بھی مان لیا کہ بدروح یا بھوت پریت ہی بہترین کمائی کا ذریعہ ہیں۔ خیر اس میں تو اپنے رام گوپال ورما بھی ہمت ہار بیٹھے جو پہلے یہ گردان کرتے رہے کہ ’ڈرنا منع ہے‘ لیکن پھر تین سال بعد سب کو سبق پڑھایا کہ بھیا کچھ بھی ہو جائے ’ڈرنا ضروری ہے۔‘

اب آپ خود سوچ کر بتائیں کہ آپ کون سی بات پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بتاتے ہوئے رتی برابر ڈریے گا مت۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم