اکبرِ اعظم کو کافرِ اعظم بنا کر کیوں پیش کیا گیا؟

یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ اکبر نے ’دینِ الٰہی‘ کے نام سے نیا مذہب ایجاد کیا تھا، مگر اس کے شواہد کتنے مضبوط ہیں؟

اکبر نے لگ بھگ 50 برس ہندوستان پر حکومت کی (پبلک ڈومین)

جلال الدین محمد اکبر واحد مغل بادشاہ ہیں جنہیں تاریخ نے اعظم کا خطاب دیا، مگر ہماری تاریخ میں ان کے مذہبی تصورات کی نسبت سے انہیں ایک متنازع کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کیا واقعی انہوں نے کوئی الگ دین بنا لیا تھا یا پھر ہمارے تاریخ دانوں نے ان کے ساتھ تعصب برتا ہے؟

اس حوالے سے ویسے تو شمس العلما مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’دربارِ اکبری‘ میں لکھ دیا ہے کہ ’بے لیاقت شیطان جب حریف کی لیاقت اپنی طاقت سے باہر دیکھتے ہیں تو اپنا جتھا بڑھانے کو مذہب کا جھگڑا بیچ میں ڈال دیتے ہیں کیونکہ اس میں فقط دشمنی ہی نہیں بڑھتی بلکہ کیسا ہی با لیاقت حریف ہو اس کی جمعیت ٹوٹ جاتی ہے۔‘

اکبر نے ہندوستان کے تکثیری سماج کے پیش نظر رواداری کو فروغ دیا لیکن بعض تنگ نظر علما نے اسے گناہِ عظیم بنا کر اس کے کھاتے میں ایک الگ دین ڈال دیا۔

الٰہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر آر پی ترپاٹھی نے اپنی کتاب ’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘ میں اکبر کے خلاف کیے جانے والے اس لغو پراپیگنڈے اور ان وجوہات کا بھی جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے اکبر کو دین الہٰی کے پرچارک کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دو قومی نظریے کی تعبیر کے پس منظر میں بھی سرکاری تاریخ دانوں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ وہ اکبر کے خلاف اس پراپیگنڈے کو ہوا دیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اکبرِ اعظم کو کافرِ اعظم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اکبر کی تربیت میں صوفی عنصر کیوں غالب رہا؟

اکبر جب پیدا ہوا تو ہندوستان میں ایسی ہندو مسلم تحریکوں کا غلبہ چل رہا تھا جن کا مقصد لوگوں کے مذہبی خیالات کے ظاہری پہلوؤں کی بجائے ان کے باطنی اور روحانی پہلوؤں کو اجاگر کرنا تھا۔ اس کے معلمین میں منعم خان اور بایزید جیسے ترک سنی، اور بیرم خان اور عبد الطیف قزدینی جیسے شیعہ بھی شامل تھے۔ عبدالطیف کو لوگ ایران میں سنی اور ہندوستان میں شیعہ سمجھتے تھے۔ اس نے اکبر کے دل و دماغ کو صوفیانہ طرز زندگی سے روشناس کرایا اور اس کے ذہن کو مولانا روم اور حافظ کے اشعار و غزلیات سے مالا مال کر دیا۔ اکبر نے دور اتالیقی میں ہی صوفیوں، درویشوں اور علمائے کرام کے ساتھ عقیدت و محبت سے ملنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اکثر بھیس بدل کر فقیروں، سادھوؤں اور شیخوں سے ملتا۔ وہ چشتیہ سلسلے کا معتقد تھا۔

اکبر کا عبادت خانہ

اکبر کو جب تاجِ شاہی پہنایا گیا تو اس کی عمر محض 14 سال تھی۔ اس لیے اس نے اگلے سالوں میں صرف شمشیر و سناں کے رموز ہی نہیں سیکھے بلکہ رازِ حیات کی کھوج بھی جاری رکھی اور اس مقصد کے لیے ہندوستان کے مذاہب اور فکر کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اسلام کے عقائد، اخلاقیات، فلسفہ، تاریخ، تصوف، روایات اور فقہ کا مطالعہ کیا اور ہندوستان کے چوٹی کے علما سے بیان سنے جن میں شیخ عبد النبی، ابو الفیض، ابو الفتح، نقیب خان اور شیخ تاج الدین شامل ہیں۔

اپنی تاج پوشی کے ایک سال کے اندر ہی ا س نے ایک عبادت خانہ تعمیر کروایا جس کے چار حصے تھے۔ مغربی حصے میں سید، جنوبی میں علما، شمالی میں مشائخ و متصوفین اور مشرقی حصے میں اکبر کے دربار کے مشہور علما و فضلا بیٹھا کرتے تھے۔

دو سال تک یہ مباحث دین اسلام تک ہی محدود تھے۔ اکبر ہر جمعرات کی رات عبادت خانے میں جاتا تھا اور وہاں موجود علما سے معلومات حاصل کرتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کسی موضوع پر علما باہم الجھ پڑتے اور بادشاہ سے ایک دوسرے خلاف شکایات کرتے۔ اکبر کو ان کے اطوار سخت ناگوار گزرتے۔

اس نے سوچا کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو عبادت خانے کا حصہ بنایا جائے تو شاید یہ لوگ سنجیدہ ہو جائیں، چنانچہ اس نے مسیحیوں، زرتشتیوں، ہندوؤں، جینیوں، بدھوں اور دہریوں پر بھی عبادت خانے کے دروازے کھول دیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان موضوعات پر بھی بحث مباحثہ ہونے لگا جن کے متعلق مسلمانوں میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا۔

ڈاکٹر آر پی ترپاٹھی لکھتے ہیں کہ ’وحی، قرآن کی قطعیت، حضرت محمدﷺ کی رسالت، قیامت، ماہیت، الوہیت، وحدت الہٰی کا تصور ایسے مسائل تھے جن کے متعلق تقریباً سارے مسلم فرقے ہم خیال تھے لیکن اب یہ موضوعات بھی عبادت خانے میں تنقید کا نشانہ بن گئے جن کے سبب نیک اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا۔ بہت ممکن تھا کہ عبادت خانہ مذاہب کی پارلیمنٹ کی شکل اختیار کر جاتا لیکن بدقسمتی سے وہ محض ایک محفلِ مباحثہ اور مختلف و متنازع فیہ عقائد فرقوں کا اکھاڑہ بن کر رہ گیا۔

’کبھی کبھی تو فریقین غصے میں مغلوب ہو جاتے ایک دوسرے کو دھمکاتے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی کہ اگر شہنشاہ موجود نہ ہوتا تو وہ مار پیٹ پر اتر آتے۔‘

اس پر اکبر نے یہاں محافظ بھی تعینات کر دیے۔ لیکن یہ عبادت خانہ مختلف غلط فہمیوں کا باعث بن گیا۔ مجالس میں شریک اور باہر کے لوگوں میں اکبر کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں۔ اکبر ایک روشن خیال بادشاہ تھا جو چاہتا تھا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں رواداری کو فروغ ملے وہ ’جیو اور جینے دو‘ کی پالیسی پر کاربند ہوں، لیکن اکبر نے سوا چار سو سال پہلے جس سماج کی تشکیل کا خواب دیکھا تھا وہ آج کے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ابھی تک ایک خواب ہی ہے۔

اکبر نے عبادت خانہ تو بند کر دیا مگر ذاتی طور پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مکالمہ جاری رکھا۔ اپنی ہندو بیگمات کی وجہ سے وہ ہندو ازم کے بارے میں بھی معلومات لینے لگا۔ اس نے پرشوتم اور دیوی کو ہندو مذہب کے اصول بیان کرنے کی دعوت دی اور خود یوگیوں اور سادھوؤں سے مل کر ہندو مذہب کے صوفیانہ پہلو کا مطالعہ کرنے لگا۔ وہ یوگ کومعرفت کاایک اہم ذریعہ سمجھتا تھا۔ اس نے زرتشت اور مسیحی مذہب کے علما کو دربار میں طلب کر کے انہیں اپنی مذہبی تعلیمات کے بارے میں لیکچر دینے کا موقع دیا جس پر رعایا میں ایسی بے بنیاد افواہیں بھی پھیل گئیں کہ بادشاہ تبدیلی مذہب میں دلچسپی رکھتا ہے۔

یہ افواہیں پھیلانے والوں میں ان کے اپنے دربار سے وابستہ دو جید عالم شیخ عبداللہ سلطان پوری اور عبدالنبی صدر الصدور پیش پیش تھے۔ ان دونوں علما کی آپس میں بھی شدید ان بن تھی۔ سلطان پوری خود زکوٰۃ بھی نہیں دیتا تھا اور ادائیگی کے وقت حد نصاب سے زیادہ مال اپنی بیوی کے نام کر دیتا تھا۔ مگر اکبر پر کبھی شیعہ اور کبھی عیسائی ہونے کا الزام لگانے سے بھی نہیں ڈرتا تھا، بلکہ اس نے اس حد تک کہہ دیا کہ ہندوستان کافروں کا ملک ہے اور مسلمانوں کے لیے ناقابل رہائش ہے۔

دوسری جانب عبدالنبی پر محکمہ مال میں خورد برد اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو سخت سزائیں دینے کی بھی شکایات تھیں۔ جس پر اکبر نے فیصلہ کیا کہ ان علما کو ہندوستان سے بے دخل کر دیا جائے جس کا حل اس نے یہ سوچا کہ انہیں حاجیوں کے قافلے کے ساتھ مکہ بھیج دیا جائے اور حکم جاری کیا کہ جب تک بادشاہ حکم نہ دے وہ واپس نہ آئیں بلکہ وہیں رہ کر بادشاہ کی جانب سے خیرات کرتے رہیں۔

اکبر بطور مجتہد

26 جون 1579 عید میلاد النبی کا دن تھا جب اکبر نے منبر پر کھڑے ہو کر فیضی کے یہ اشعار، دعا اور فاتحہ پڑھ کر خطبہ دیا:

’اس اللہ کے نام کے ساتھ جس نے ہم کو اقتدار بخشا، جس نے ہم کو بیدار قلب اور محکم بازو عنایت کیے، جس نے ہم کو مساوات اور انصاف کا راستہ دکھایا، جس نے ہمارے دل کو برابری کے علاوہ سب چیزوں سے پاک کر دیا۔ اس کی حمد ہمارے وہم وگمان کی رسائی سے بہت پرے ہے اس کی شان اعلیٰ و ارفع ہے۔ اللہ و اکبر۔‘

اس کے چند ماہ بعد اکبر کے دربار سے ایک فرمان جاری ہوا جس پر مشہور علما نے دستخط کیے جس میں بادشاہ کے عادل ہونے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ بادشاہ کا رتبہ اللہ کی نگاہ میں ایک مجتہد سے زیادہ بلند ہے۔ لیکن بادشاہ کو مجتہد نہیں قرار دیا گیا یہ عندیہ دیا گیا کہ اگر بادشاہ رعایا کے امن و امان کی خاطر کوئی نیا فرمان جاری کرنا چاہے تو وہ اسی صورت نافذ ہو سکتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔

اکبر نے آگے چل کر نہ صرف خود شکار کرنے کو ترک کر دیا بلکہ گوشت خوری بھی ترک کر دی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جینیوں کے اثر میں آ گیا تھا بلکہ وہ صوفیا اور فقیروں کے راستے پر تھا جو ہر ذی روح کا احترام کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح اس نے منظور شدہ لوگوں کے علاوہ شراب بنانا اور فروخت کرنا بھی ممنوع قرار دے دیا، جس کو لوگوں نے ایک الگ دین کے طور پر پیش کیا وہ خود کہتا ہے کہ ’اگرچہ میں اتنی وسیع سلطنت کا مالک ہوں اور حکمرانی کی ساری لذت میری مٹھی میں ہے لیکن کیونکہ حقیقی بڑائی خدا کے احکامات کی پابندی میں ہے لہٰذا جب میں عقائد میں اس قدر اختلاف دیکھتا ہوں تو میرا دماغ پریشان ہو جاتا ہے۔‘

اکبر نے رواداری پر مبنی اپنے نظریات کا جو اسلام کے اندر صوفی روح کی صورت میں پہلے سے موجود تھے ان کا پرچار کیا جس پر کئی لوگ ان کے معتقد بن گئے۔ لوگ اتوار کے روز اس کے ہاتھ پر اسی طرح بیعت کرنے آتے جیسے صوفی سلسلوں میں آج کل بھی بیعت ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تعداد چند ہزار سے زیادہ ہر گز نہ تھی کیونکہ بادشاہ اس کو کسی مشنری جذبے کے تحت نہیں بلکہ اپنی روحانی آسودگی کی خاطر جاری رکھے ہوئے تھا۔ اکبر کے اس نظریے کو ابو الفضل نے ایک کتبے میں بیان کیا ہے:

’اے خدا میں معبد میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو تیری جستجو میں ہیں اور ہر زبان میں جو بولی جاتی ہے تیری ثنا خوانی کرتے ہیں۔ شرک اور اسلام تیری ہی جستجو میں ہے۔ ہر مذہب یہی سکھاتا ہے کہ تو واحد اور بے مثال ہے۔ لوگ مسجد میں تیری تقدیس کے گن گاتے ہیں اور مندر میں تیری محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر ناقوس بجاتے ہیں۔

’میں کبھی عیسائیوں کے گرجے، ہندوؤں کے مندر اور کبھی مسجد کا رخ کرتا ہوں میں ہر جگہ تیری ہی تلاش میں سرگرداں رہتا ہوں تیرے برگزیدہ بندوں کو کفر و عصبیت سے کیا نسبت کیونکہ ان میں کوئی بھی تیرے اسلام (سچائی) کے پردے کے پیچھے نہیں ٹھہر سکتا کفر کافر کو اور دین، دین پرست کو مبارک۔ لیکن گلاب کی پنکھڑیوں کی خاک کی نسبت تو عطار کے دل میں ہی ہو سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ