برطانوی سیاست میں جنوبی ایشیائی نژاد نسل کا ڈنکا

برطانیہ کی سیاست میں جنوبی ایشیائیوں کو یہ رتبہ راتوں رات نہیں ملا بلکہ اس کے پیچھے ان کی سیاسی جدوجہد کی طویل تاریخ ہے۔

اس وقت انگلستان اور سکاٹ لینڈ کے سربراہوں کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے (اے ایف پی)

یہ کیسا اتفاق ہے کہ برطانیہ اور سکاٹ لینڈ دونوں کے سربراہوں کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ لندن کا میئر بھی مسلمان ہے اور اس کے والدین بھی پاکستانی ہیں۔

لیکن یہ بات شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ برطانیہ کی سیاست میں جنوبی ایشیائیوں کو یہ رتبہ دن رات میں نہیں ملا بلکہ اس کے پیچھے ان کی سیاسی جدوجہد کی پوری ایک تاریخ ہے، جس کے ڈانڈے 130 سال پہلے 1892 سے ملتے ہیں جب دادا بھائی نوروجی پہلے ہندوستانی بن گئے تھے جو دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ لیکن ان کا سفر آسان نہیں تھا۔

دادا بھائی نورو جی کی جدوجہد

دادا بھائی نورو جی 1825 میں ممبئی میں ایک پارسی گجراتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1852 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہندوستانیوں کی پہلی سیاسی تنظیم بمبئی ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ 1855 میں انہیں الفنسٹن کالج میں ریاضی اور فلسفے کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ اس عہدے پر متمکن ہونے والے بھی وہ پہلے انڈین تھے۔

لیکن اس کے کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے پروفیسری کو خیر آباد کہہ کر برطانیہ میں ایک تجارتی کمپنی کاما اینڈ کو میں نوکری کر لی جس کا دفتر لیور پول میں تھا اور جو پہلی ہندوستانی کمپنی تھی جس نے برطانیہ میں اپنا تجارتی دفتر قائم کیا تھا۔

تین سال کے بعد انہوں نے ’دادا بھائی نورو جی اینڈ کمپنی‘ کے نام سے اپنی تجارتی کمپنی قائم کر لی جو کپاس کی تجارت کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یونیورسٹی کالج لندن میں گجراتی زبان کا پروفیسر بھی مقرر کر دیا گیا۔

1867 میں انہوں نے ایسٹ انڈین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد برطانوی عوام کو ہندوستانیوں کے مسائل سے معلومات فراہم کرنا تھا۔ 1885 میں یہی ایسوسی ایشن انڈین نیشنل ایسوسی ایشن میں ضم کر دی گئی جو بعد ازاں انڈین نیشنل کانگریس بن کر ابھری، جس نے آگے چل کر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی۔

دادا بھائی نورو جی 1874 میں ہندوستان واپس آ گئے اور مہاراجہ آف برودا کے دیوان یعنی وزیر مقرر ہو گئے۔ بعد میں دادا بھائی لیجسلیٹو کونسل آف بمبئی کے رکن بھی بن گئے۔

لیکن دادا بھائی نورو جی سمجھتے تھے کہ ان کی منزل برطانوی پارلیمنٹ ہے جہاں پہنچ کر وہ ہندوستان کے حقوق کی آواز بلند کر سکتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ایک بار پھر برطانیہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے متعدد بار دارالعوام کے انتخابات میں حصہ لیا۔

1886 میں انہوں نے لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر ہالبرن لندن سے انتخاب لڑا مگر ہار گئے۔ جس پر اس وقت کے وزیراعظم لارڈ سالزبری نے کہا کہ یہ ایک خالصتاً انگریز حلقہ تھا جو کہ ایک ’کالے‘ شخص کو منتخب کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

مگر اس کا اثر یہ ہوا کہ برطانوی پریس میں دادا بھائی نورو جی کی مقبولیت بڑھی اور انہیں ’ہندوستان کا مرد بزرگ‘ قرار دے دیا گیا۔ برطانیہ میں انہیں ایک سماجی اور آزاد خیال رہنما کے طور پر جانا گیا۔ 1892 میں وہ لندن کے ہی ایک اور حلقے سینٹرل فنسبری سے رکن پارلیمان منتخب ہو کر یہ اعزاز پانے والے پہلے ہندوستانی بن گئے۔

انہوں نے حلف بھی بائبل پر نہیں بلکہ پارسی عہد نامے ’اوستا‘ پر لیا۔ یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے سیاست کا باقاعدہ آغاز دادابھائی نوروجی کے ساتھ بطور ان کے اسسٹنٹ بن کر کیا۔ انہوں نے لندن میں دادا بھائی نوروجی کی کامیاب انتخابی مہم بھی چلائی اور جیتنے کے بعد بھی ان کے ماتحت کے طور پر سرگرم رہے۔

اگلے الیکشن میں دادا بھائی اپنی سیٹ ہار گئے تاہم ان کی جدوجہدِ آزادی میں کمی نہیں آئی اور وہ 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر منتخب ہو گئے۔ گاندھی جیسے رہنما بھی انہیں مشعل راہ قرار دیا کرتے تھے۔ انہیں ہندوستانی قوم پرستی کا باپ کہا جاتا ہے، جنہوں نے تاجِ برطانیہ کی جانب سے ہندوستان سے پیسے کے انخلا اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی غربت پر کئی کتابیں لکھیں۔

ان کی پہلی کتاب 1876  میں Poverty of India تھی جبکہ 1901 میں شائع ہونے والی ان کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India ہندوستانی قوم پرستوں کے لیے بائبل کا درجہ رکھتی تھی اور اسی کتاب نے ہندوستانیوں کے اندر تاج سے نفرت اور آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔

1917  میں ان کا انتقال ہوا مگر وہ ایک تاریخ رقم کر گئے۔ ان کا شمار برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے منتخب ہندوستانی رکن کے طور پر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ تحریک آزادی کے بھی بانی رہنما تھے۔

صوفیہ دلیپ سنگھ اور شاہ پرجی

دادا بھائی نوروجی کے بعد برطانوی سیاست میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی صوفیہ دلیپ سنگھ کا نام آتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق دینے کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ برطانوی محکمہ ڈاک نے 2018 میں ان کے نام کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا۔

شاہ پرجی ساکلات والا جو کہ ہندوستانی صنعت کار جے این ٹاٹا کے بھانجے تھے وہ بھی 1922 میں کمیونسٹ پارٹی آف گریٹ بریٹن کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے وہ بھی پارسی تھے۔

جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں سیاسی بیداری کی لہر

کونسلر محمد عجیب پہلے ایشیائی تھے جو 1985 میں بریڈ فورڈ کے لارڈ میئر بنے۔ انہوں نے سیاست کے ایوانوں میں کمیونٹی کے لیے دروازہ کھول دیا۔ حالانکہ اس وقت ناقدین کہتے تھے کہ لارڈ میئر ایک علامتی عہدہ ہوتا ہے اور اصل اختیارات کونسل کے چیف ایگزیکٹو کے پاس ہوتے ہیں اور گورے کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی کالا کسی اہم عہدے پر پہنچے۔

لیکن آنے والے سالوں نے یہ نقطۂ نظر بھی غلط ثابت کر دیا جب برطانوی پارلیمنٹ کے دروازے بھی نسلی اقلیتوں کے لیے کھل گئے۔ پاکستان سے ہی تعلق رکھنے والے لارڈ نذیر احمد برطانوی دارلامرا کے رکن بنا دیے گئے۔ 1996 تک پارلیمنٹ کے صرف چار رکن جنوبی ایشیائی تھے لیکن یہ تعداد 2010 میں 25 اور آج 41 ہے جو کل ارکانِ پارلیمان کا 6.3 فیصد ہے۔

برطانوی دارالعوام کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021-22 تک برطانیہ کی 16سال سے زائد کی آبادی میں جنوبی ایشیائی آبادی کا تناسب سات  فیصد ہے جبکہ 87 فیصد آبادی گوروں پر مشتمل ہے۔ باقی چھ فیصد کالوں اور دیگر نسلی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 میں دارالعوام میں نسلی اقلیتوں کی نمائندگی کا تناسب 10 فیصد ہے اور ان کے کل ممبران کی تعداد 66 ہے۔ جن میں سب سے زیادہ ارکان یعنی 41 کا تعلق لیبر پارٹی، 23 کا کنزرویٹو پارٹی اور دو کا لبرل ڈیموکریٹس سے ہے۔

خوش کن امر یہ ہے کہ تقریباً آدھی سے زائد ارکان خواتین ہیں۔ ستمبر 2022 تک دارالامرا کے 55 ارکان کا تعلق بھی نسلی اقلیتوں سے تھا جو دارالامرا کے کل ارکان کا 7.3 فیصد بنتے ہیں۔ 1919 میں ہندوستان کے ستیندرا سنہا پہلے لارڈ بنے تھے جن کا تعلق رائے پور سے تھا۔

رشی سونک کا تعلق بھی پاکستان سے

اگرچہ اب بھی برطانوی پارلیمنٹ میں نسلی اقلیتوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کچھ کم ہے تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک کا تعلق بھی نسلی اقلیت سے ہے۔

ان کے دادا کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا جو تقسیم سے پہلے کینیا ہجرت کر گئے تھے جہاں سے رشی کے والد نے 1960 میں برطانیہ ہجرت کی۔ اسی طرح لندن کے لارڈ میئر صادق خان کے والدین بھی پاکستان سے ہجرت کر کے گئے جن کے بیٹے کو لندن کے پہلے مسلمان میئر بننے کا اعزاز نصیب ہوا۔

گذشتہ دنوں اس تسلسل میں ایک اور تاریخ رقم ہوئی جب سکاٹش پارلیمنٹ نے پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کر لیا اور وہ یہ عہدہ حاصل کرنے والے سب سے کم عمر نوجوان اور پہلے مسلمان بن گئے ہیں۔ ان کے والدین کا تعلق بھی پنجاب کےعلاقے میاں چنوں سے ہے۔

نئی نسل، نئے عزائم

برطانوی سیاست کے ایوانوں میں اس وقت نسلی اقلیتوں اور بالخصوص جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا ڈنکا بج رہا ہے۔

تاہم کیا یہ محض اتفاق ہے کہ صرف دو دہائیاں پہلے وہ خود کو اور اپنی نسلوں کو برطانیہ میں غیر محفوظ سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد نسلی تعصب میں خطرناک اضافے کی وجہ سے برطانیہ ان کے لیے غیر محفوظ ہو گیا ہے؟

تاہم آنے والے سالوں میں ان کے اس تاثر کی نفی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک نسلی تعصب کے واقعات میں مسلمان پہلے نمبر پر ہیں۔ ہوم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2021 سے مارچ 2022 تک مذہبی بنیادوں پر نفرت انگیز جرائم میں  26فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسلمان اس کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور 42 فیصد مذہبی منافرانہ جرائم کا ارتکاب ان کے خلاف ہوا ہے۔

اس فہرست میں یہودی دوسرے نمبر ہیں جن کے خلاف 23 فیصد جرائم ہوئے ہیں۔ دوسری جانب صفِ اوّل کی سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں اور نسلی اقلیتوں کی نمائندگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر محمد علی بریڈ فورڈ میں نسلی اقلیتو ں کی قومی دھارے میں مؤثر شرکت کے حوالے سے ایک این جی او ’کوئسٹ فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘ کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1990 میں کیو ای ڈی کی بنیاد رکھتے وقت ان کے ’وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن ان کی زندگی میں ایسا بھی آئے گا جب کوئی غیر گورا حکومت کا حصہ ہو گا یا پھر وہ وزیر اعظم بھی بن جائے گا۔ آج برطانوی وزیراعظم ہی نہیں سکاٹ لینڈ کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہ بھی نسلی اقلیتوں سے ہیں۔‘

انس سرور جو کہ چوہدری سرور کے بیٹے ہیں وہ 2021 سے سکاٹش لیبر پارٹی کے سربراہ ہیں جبکہ حمزہ یوسف صرف 37 سال کی عمر میں حزب اقتدار جماعت کے سربراہ بن کر وزیراعظم مقرر ہو چکے ہیں۔

لندن کے میئر صادق خان بھی پاکستانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ سب کچھ برطانیہ کے متنوع سماج کی جیت ہے تاہم ابھی بھی برابری کی جنگ جیتنے میں انہیں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اس وقت دارالعوام کے 66 ارکان کا تعلق نسلی اقلیتوں سے ہے جبکہ اگر آبادی میں ان کے تناسب کو دیکھا جائے تو ان کے ارکان کی تعداد 85 ہونی چاہیے۔

’اسی طرح برطانیہ میں انتظامی نوعیت کے کلیدی عہدوں پر پہنچنے کے لیے ابھی تک ان کے راستے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں میں بیروزگاری کا تناسب سب سے زیادہ یعنی 6.7 فیصد ہے۔ لیکن حالیہ کامیابیوں کے بعد میں پر امید ہوں کہ مساوی مواقع نسلی اقلیتوں کو قومی دھارے کا پر جوش حصہ بنا دیں گے۔‘

وجاہت علی خان تجزیہ کار اور صحافی ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں سے کمیونٹی کی سرگرمیوں کو رپورٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوبی ایشیائی ’کمیونٹی کو یہ کامیابیاں اس وقت ملیں جب ہماری نئی نسل نے اپنے والدین کی روایت کے برعکس یہاں کی مقامی اور قومی سیاست میں منظم طور پر حصہ لینا شروع کیا اور قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے کسی تعصب یا نفرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بھرپور مواقع بھی فراہم کیے، اور یہی برطانوی پارلیمانی جمہوریت کا حسن ہے۔

’اس وقت پاکستانی نژاد قابل فخر پاکستانیوں میں سر انور پرویز، لارڈ ضمیر احمد، جیمس خان، ساجد محمود، نتاشا خان، ظارق غفور، سعیدہ وارثی، حنیف قریشی، طارق علی، زین ملک، مشاعل حسین، مارٹن بشیر، عامر خان اور سلمیٰ یعقوب کے نام شامل ہیں۔‘

دارالعوام کے 30 ارکان کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے ہے جبکہ اڑھائی سو کے قریب کونسلر ایسے ہیں جن کا اپنا یا ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لندن سے سابق کونسلر اور برنٹ کونسل کے سابق میئر احمد شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ کامیابیوں کے پیچھے طویل جدوجہد کی ایک داستان ہے انہوں نے لیبر پارٹی میں بلیک ایشیئن اینڈ مائنارٹی ایتھنک BAME کی بنیاد رکھی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان نسلی اقلیتوں جو کہ لیبر پارٹی کو سپورٹ کرتی ہیں ان کی نمائندگی پارلیمنٹ اور مقامی کونسلوں میں بڑھائی جائے۔

’میں اس کا پہلا چیئرمین منتخب ہوا۔ ہم نے برطانیہ بھر میں اس کی 23 ذیلی شاخیں قائم کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لیبر پارٹی کی دیکھا دیکھی باقی پارٹیوں میں بھی بی اے ایم ای کی نمائندگی بڑھی ہے۔‘

مسعود اقبال جنجوعہ یارک شائر میں پچھلے 30 سال سے امیگریشن لا سپیشلسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کی مکمل نفی کی کہ مسلمانوں یا نسلی اقلیتوں کو برطانیہ میں کسی ادارہ جاتی تعصب کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جس دن لندن حملے ہوئے تھے، اس دن عدالت میں ان کی تین اپیلیں تھیں اور تینوں کا فیصلہ ان کے حق میں آیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انڈین کمیونٹی اس لیے ہم سے آگے ہے کہ وہ آتے ہی یہاں کے سماج میں مدغم ہو گئی تھی جبکہ ہم نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی جس کی وجہ سے ہمیں یہاں مدغم ہونے میں دو نسلوں کی قربانی دینی پڑی۔ اس میں سارا قصور ہماری پہلی نسل کا ہے۔

’اب تیسری نسل برطانیہ کے تمام شعبوں میں شانہ بشانہ ہے اور اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور اس میں ہماری عورتیں صف اوّل کا کردار ادا کر رہی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین