چین پر اویغور مسلمان خواتین کو بانجھ بنانے کا الزام

کیمپ سے رہائی پانے والی ایک خاتون نے بتایا: ’ہمیں دروازے میں بنے ایک چھوٹے سوراخ سے اپنا بازو باہر نکالنا پڑتا تھا۔ ان ٹیکوں کے بعد ہمیں ماہواری آنا بند ہو جاتی تھی۔‘

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق چین کے حراستی مراکز میں 10 لاکھ تک افراد کو رکھا گیا ہے جن کا تعلق ایغور، قازخ اور دوسری اقلیتوں سے ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

چین میں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے لیے بنائے گئے حراستی کیمپوں کے سابق مکینوں کے مطابق ان کیمپوں میں اویغور مسلمان خواتین کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔

کیمپ سے رہائی پانے والی ایک خاتون گلبہار جلیلووا نے دعویٰ کیا: ’وہ ہمیں وقتاً فوقتاً ٹیکے لگاتے رہتے تھے۔‘

گلبہار جلیلووا چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں بنائے گئے ایسے ایک کیمپ میں ایک سال سے زیادہ وقت گزار چکی ہیں۔

دوسری جانب چین کا دعویٰ ہے کہ یہ کیمپ حراستی نہیں بلکہ ’ری ایجوکیشن‘ یا دوبارہ تعلیم دینے کے سرکاری مراکز ہیں۔ 

54 سالہ گلبہار نے چینل ’فرانس 24‘ کو بتایا: ’ہمیں دروازے میں بنے ایک چھوٹے سوراخ سے اپنا بازو باہر نکالنا پڑتا تھا۔ ان ٹیکوں کے بعد ہمیں ماہواری آنا بند ہو جاتی تھی۔‘

گلبہار نے اپنا زیادہ تر وقت اُن 50 افراد کے ساتھ گزارا، جنہیں ایسے کمرے میں رکھا گیا تھا جس کی لمبائی محض 20 فٹ اور چوڑائی 10 فٹ تھی۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہ ایسا تھا کہ جیسے ہم بس کوئی گوشت کا ٹکڑا ہوں۔‘

جاپانی اخبار نکے ایشیئن ریویو میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کچھ ایسی ہی کہانی 30 سالہ مہری گل ٹرسن نے بھی سنائی تھی جب انہوں نے ٹوکیو میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل سے ویڈیو کال پر بات کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مہری گل ٹرسن اس وقت امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ 2017 میں حراستی مرکز میں تھیں تو انہیں نامعلوم ادویات دی جاتی تھیں اور ٹیکے لگائے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا: ’میں ایک ہفتے تک اپنے آپ کو تھکا ہوا محسوس کرتی تھی۔ مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا اور میں ڈپریشن کا شکار تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں دماغی مرض کی تشخیص ہوئی اور پھر چار ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بانجھ ہو چکی ہیں۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق چین کے حراستی مراکز میں دس لاکھ تک افراد کو رکھا گیا ہے جن کا تعلق اویغور، قازخ اور دوسری اقلیتوں سے ہے۔

محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مراکز کو ’جنگ کے زمانے‘ کے حراستی مراکز کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ یہ مراکز ’سماجی تبدیلی اور ثقافتی قتل عام کی مربوط مہم‘ کا حصہ ہیں۔

تاہم چینی حکومت نے ان مراکز کو ’بورڈنگ سکولوں‘ کا نام دیا ہے جہاں پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی ہے۔ حکومت نے تشدد اور دوسری بدسلوکیوں کو ’جعلی خبریں‘ قرار دے کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

ماضی میں حراست میں رہنے والے افراد نے ان کیمپوں میں ہونے والے تشدد، مار پیٹ اور بجلی کے جھٹکے لگانے کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ انہیں زبردستی سؤر کا گوشت کھلایا جاتا تھا اور دوبارہ تعلیم کی کلاسوں میں جانے اور سیاسی ترانے گانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

البتہ اقلیتوں سے بدسلوکی پر عالمی سطح پر احتجاج کے باوجود چین پر بہت کم اثر ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے اطلاعات آئی تھیں کہ چین مزید خفیہ مراکز بنا رہا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین