تین برس قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے پنجاب میں شروع کیے جانے والے ’انصاف آفٹر نون سکول‘ کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ نو ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔
پنجاب ٹیچرز یونین نے موجودہ نگراں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دو ٹوک فیصلہ کریں کہ ان سکولوں کا مستقبل کیا ہوگا، جبکہ حکومت کا اس معاملے پر موقف ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
تنظیم کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’سابقہ وزیر برائے سکول ایجوکیشن پنجاب مراد راس نے بجائے نئے سکول کھولنے کہ پرانے سکولوں کے درجے تبدیل کر دیے۔ انہوں نے 1227 مڈل سکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دے دیا اور پرائمری سکولوں کو مڈل سکولوں کو درجہ دے دیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جن سکولوں کا درجہ مڈل سے ہائی ہوا تھا وہ مکمل طور پر حکومت کے ماتحت رہنے دیے جبکہ جن پرائمری سکولوں کو مڈل سکولوں کا درجہ دیا ان کو ’انصاف آفٹر نون سکول‘ کا نام دے دیا اور ان سکولوں کی تعداد پنجاب میں آٹھ ہزار کے قریب ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’ان سکولوں میں صبح کے وقت سات بجے سے 12 بجے تک پرائمری سکول چلتا ہے اور دوپہرساڑھے 12 سے شام ساڑھے پانچ بجے تک چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کی کلاسز ہوتی ہیں۔
حکومت نے وہ اساتذہ جو صبح میں پرائمری سکول کو پڑھاتے تھے انہیں پیش کش کی کہ انہیں 15 ہزار فی استاد اضافی دیا جائے گا اگر وہ دوپہر میں مڈل سکول کو بھی پڑھائیں۔‘
رانا لیاقت نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ پرائمری سکول کا ہیڈ دوسرے پہر چلنے والے مڈل سکول کا بھی انچارج ہو گا اور انہیں اضافی 18 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ جو اساتذہ دوپہر میں کام نہیں کرنا چاہتے ان کی جگہ پر پرائیویٹ استاد رکھ لیا جائے گا جسے 15 ہزار ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔ اساتذہ کے لیے یہ بھی شرط رکھی گئی کہ انہیں 15 ہزار تب ملیں گے اگر وہ 20 طالب علموں کی تعداد پوری کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر کچھ فنڈز وغیرہ ملے تھے اور سکول بھی چند سو تھے لیکن حکومت نے پھر دوسرے مرحلے میں ان سکولوں کی تعداد آٹھ ہزار کر دی۔
’پہلے والوں کو تنخواہیں ملی نہیں تھیں اور وہ ان سکولوں کو بڑے پیمانے پر لے گئے۔ اساتذہ جو پہلے سے کام کر رہے تھے ان کو بھی تنخواہیں ایک سال بعد دی گئیں اور اس وقت بھی کچھ اضلاع میں چھ ماہ اور کچھ اضلاع میں نو ماہ ہو چکے ہیں کہ انصاف آفٹر نون سکول کے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دی گئیں۔‘
رانا لیاقت نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2022 اور 2023 کے بجٹ میں ان سکولوں کے لیے پیسے مختص کیے تھے لیکن وہ فنڈز ریلیز نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اساتذہ کو ابھی تک تنخواہیں نہیں مل سکیں۔
رانا لیاقت کا کہنا تھا: ’ان سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد تقریباً 20 ہزار ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ 2023 اور 2024 کا بجٹ موجودہ حکومت نے دینا ہے تعلیمی سیشن یکم اگست سے شروع ہونا ہے۔ اگر آنے والے بجٹ میں ان سکولوں کے لیے فنڈز نہیں رکھے جاتے تو جو بچے پرائمری سکول سے کسی بڑے مڈل سکول میں جانے کی بجائے اسی سکول میں مڈل میں داخلہ لے چکے ہیں، انہیں پڑھائے گا کون اور وہ بچے کہاں جائیں گے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا لیاقت کے مطابق: ’یہ پروگرام ہمارے مستقل اساتذہ کے خلاف ہے کیونکہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے اور 15 ہزار روپے لینے والا پرائیویٹ استاد طالب علموں کی تعداد بھی پوری کر لیتا ہے تو یہ مستقل استاد رکھنے کی بجائے 15، 15 ہزار روپے پر استاد بھرنا شروع کر دیں گے۔ یہ منصوبہ وقتی طور پر تو حکومت کا نعرہ ہو سکتا تھا مگر اس کا اتنا فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ منصوبہ 80 فیصد بھی کامیاب ہوا ہے تو ایسا نہیں ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اساتذہ نے سیکریٹری سکول ایجوکیشن اور دیگر متعلقہ افسران سے رابطہ کیا ہے لیکن وہ یہی کہتے ہیں کہ اب تنخواہ مل جائے گی، 15 دن بعد مل جائے گی لیکن کچھ نہیں ملا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ایک سابقہ سیکریٹری ایجوکیشن سے رابطہ کیا جنہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ بات درست ہے کہ انصاف آفٹر نون سکول کے اساتذہ کو تنخواہیں مہینوں مہینوں نہیں ملتی تھیں اور یہ چیز ہماری نظر سے بھی گزرتی تھی۔ تکنیکی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ حکومت کا یہ اقدام ایک طرح سے بند ہی ہو چکا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری سکول ایجوکیشن پنجاب قیصر رشید کا موقف اس کے برعکس ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’انصاف آفٹر نون سکول ایک منظور شدہ منصوبہ ہے۔ منظور شدہ منصوبے جس بھی حکومت کے ہوں وہ چلتے ہیں۔‘
بچوں نے سکول میں آنا ہے اساتذہ نے انہیں پڑھانا ہے کوئی حکومت آئے نہ آئے اس کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے۔ ’اس منصوبے کو بند کرنا کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔‘
تننخواہوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کو سمری بھیجی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ یہ مسئلہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔
قیصر رشید نے بتایا: ’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے تین عشاریہ دو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس منصوبے کا پائلٹ پروگرام مسلم لیگ ن کی حکومت میں چلایا گیا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ پروگرام چلتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد میگا پروگرام میں اس کو پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے منتقل کیا۔ ایک اچھی چیز کو پائلٹ کے بعد بڑے پیمانے پر لایا گیا اس لیے یہ منصوبہ کسی ایک حکومت کا نہیں ہے بلکہ عوام کا ہے اور یہ چلے گا۔