کوئٹہ کے عبدالشکور شہر کے نواحی علاقوں میں رہنے والے رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے بچوں کو ایک ’خیمہ سکول‘ میں اردو اور انگریزی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
یہ پہلے ’ٹاٹ سکول‘ تھا جو بعد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی امداد ملنے کے بعد خیمہ سکول بنا دیا گیا۔
عبدالشکور نے بتایا کہ شروع میں لوگوں کو بچوں کی تعلیم کے لیے قائل کرنا انتہائی مشکل کام تھا اور اس میں انہیں کافی عرصہ لگا۔
’ابتدائی کام میں نے 2007 میں شروع کیا، جو ایک ٹاٹ اور اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹا سا سکول تھا۔
’گرمی سے بچنے کے لیے ہم سائے میں پڑھاتے تھے۔ پھر دو کمرے تعمیر کیے، جن کو بارشوں نے نقصان پہنچایا۔‘
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2019 میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ( یواین ایچ سی آر) نے دو شیلٹر دیے جہاں اب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہم نے رضاکارانہ جاری رکھا ہوا ہے۔
’کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس پر کوہ مہردر کے دامن میں افغان پناہ گزینوں کے چھ ہزار خاندان رہتے ہیں جو معاشی طور پر بہت کمزور اورغریب ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش محنت مزدوری، کچرہ چننا اور گدھا گاڑی چلانا ہے۔‘
عبدالشکور نے بتایا کہ وہ اس مقصد کے لیے 25 سال سے جدوجہد کر رہے ہیں۔
’ابتدا میں لوگوں نے اس کام میں بہت رکاوٹیں ڈالیں اور باتیں کیں کہ یہ شخص اپنے مقصد اور فلاں کے لیے کام کرتا ہے، این جی اوز کے کام کرتا ہے۔
’میں نے کچرہ چننے والے بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان سے ملاقات کی اور پھر ایک کمیٹی بنائی۔
’اس طرح ان لوگوں کے ساتھ ہماری بہت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہم ان کو تعلیم کی افادیت کے بارے میں قائل کرتے رہے، جو بالاخر کامیاب ہوئیں۔‘
عبدالشکور نے اپنی جدوجہد کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ ’ایک بچے کے والد کا کہنا تھا یہ کفرکی تعلیم ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد وہ بچے کو بھیجنے پر راضی ہوئے۔
’ایک روز وہ کسی کا ٹیلی فون نمبر نہیں لکھ پا رہے تھے، جس پر ان کے بیٹے نے یہ مسئلہ حل کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ دیکھ کر انہوں نے سکول میں آ کر کہا کہ میرے جتنے بھی بچے ہیں، سب کو داخل کریں۔ اس طرح ہم نے لوگوں کی ذہن سازی کی اور وہ تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھیں لیکن ہمارے پاس جگہ نہیں۔
’اس وقت ہمارے پاس 280 بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن میں 170 بچیاں ہیں۔‘
عبدالشکور کے مطابق انہوں نے مادری زبان میں تعلیم کی بجائے بلوچستان بورڈ کا اردو نصاب شروع کروایا تاکہ کتب کی فراہمی آسان ہوسکے، اب یہ بچے اردواورانگریزی بھی سیکھ رہے ہیں۔
’تعلیم نے ان بچوں کا رویہ، اٹھنا بیٹھنا اور صفائی کے حوالے سے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔
’یہ بچے اپنے والدین کو بتاتے ہیں کہ ان کے پناہ گزین کارڈ کی مدت ختم ہو رہی ہے، ان کے لیے کون سے پروگرام چل رہے ہیں، جو میں سمجھتا ہوں بڑی تبدیلی ہے۔‘