انڈیا کا سکول افغان پناہ گزینوں کے لیے امید کی کرن

جنوبی دہلی کے علاقے لاجپت نگر کے اس سکول میں لگ بھگ 350 طالب علم زیر تعلیم ہیں، جن میں 30 تا 40 برس کی متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایسے سینکڑوں افغان پناہ گزین بچے اور خواتین مقیم ہیں جہاں انہیں معیاری تعلیم دستیاب نہیں ہے، تاہم جنوبی دہلی کے علاقے لاجپت نگر میں ایک ایسا سکول ہے جو ایسے ہی افراد کو تعلیم مہیا کر رہا ہے۔

اس سکول میں لگ بھگ 350 طالب علم زیر تعلیم ہیں، جن میں 30 تا 40 برس کی متعدد خواتین بھی شامل ہیں۔

اس ادارے میں بچوں کو مختلف علوم اور مضامین سکھائے جاتے ہیں، جن میں انگریزی، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کے ساتھ ساتھ قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں شادی شدہ خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔

’انجم نالج ہاؤس‘ نامی اس ادارے میں کرونا وبا سے قبل 600 سے زائد طالب علم داخلہ لے چکے تھے تاہم وبا کے نتیجے میں طالب علموں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔  

46 سالہ فریدہ خیرخوا کے بقول وہ یہاں انگریزی اور کمپیوٹر سائنس اس غرض سے پڑھ رہی ہیں تاکہ وہ انڈیا سے باہر امریکہ یا کینیڈا جیسے ممالک میں روزگار کے بہتر مواقع تلاش کرنے کے قابل بن سکیں۔

اپنے آبائی وطن افغانستان میں بحیثیت استاد کام کرنے والی فریدہ نے 2006 میں شورش زدہ حالات اور دیگر مجبوریوں کے نتیجے میں انڈیا کا رخ کیا تھا، جہاں انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام شروع کیا۔

انہوں نے بتایا: ’یہ سکول میرے لیے امید کی کرن ہے اور یہاں میں سیکھ بھی رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اب میں مغربی ممالک میں مناسب ملازمت ڈھونڈنے کے قابل بن چکی ہوں۔‘

چونکہ اب افغانستان طالبان کے زیر کنٹرول ہے تو انڈیا میں مقیم متعدد افغان پناہ گزینوں کو یہ امید ہے کہ وہ شاید اب اپنے وطن لوٹ سکتے ہیں۔

سکول کے مہتمم انجم خان کے مطابق انہوں نے اس سکول کی بنیاد 2017 میں اس وقت رکھی تھی، جب وہ خود پناہ کے لیے انڈیا آئے تھے۔

’میں نے فوراً ہی یہ جانچ لیا تھا کہ افغان پناہ گزینوں، خاص کر بچوں کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ میں نے ایسے افراد کو وہ سہولیات مہیا کیں جو انہیں سرکاری سکولوں میں نہیں مل سکتی تھیں۔ یہاں وہ اپنی پسند کے مضامین اور علوم سیکھ سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انجم اپنے بل بوتے پر اس ادارے کو چلاتے ہیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ خود ایک ریستورنٹ میں دو شفٹوں میں کرتے ہیں۔ ’میں کسی سے مدد نہیں مانگتا اور نہ ہی کسی سرکاری یا نجی ادارے سے فنڈنگ ملتی ہے۔ ادارے کے تمام اخراجات میں خود اٹھاتا ہوں۔‘

’جو فیس دینے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ ادا کرتے ہیں اور جو اس حالت میں نہیں ہیں، ان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔‘

رحمت اللہ سلطانی جن کی عمر 12 سال ہے، وہ اس سکول میں انگریزی اور کمپیوٹر سیکھتے ہیں اور ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول زبان کے باعث وہ دہلی کے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

’یہاں میں اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور یہاں کے اساتذہ بہت قابل ہیں۔‘

اگرچہ انڈیا کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کو پناہ دے رہا ہے تاہم ملک میں اس حوالے سے پالیسی واضح نہیں ہے۔ مہاجرین کے لیے دستاویز جمع کرانا اور دیگر قوانین پر عمل کرنا آسان نہیں ہے۔ غیر یقینی کے بیچ لاجپت نگر کا یہ سکول کئی آنکھوں میں خواب سجا رہا ہے اور ان کے لیے امید اور سہارا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا