میں تین سال قبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ برطانیہ پہنچی تھی اور تب سے ہم اپنی پناہ کی درخواست کی حیثیت کے بارے میں فیصلے کے منتظر ہیں۔
افغانستان کے صدارتی محل میں سابق افغان صدر اشرف غنی کے سینیئر مشیر کے ساتھ میری ملازمت نے مجھے ایک خاتون کی حیثیت سے انتہائی کمزور صورت حال سے دوچار کیا۔ طالبان ہمیشہ سرکاری ملازمین خصوصا آزاد خواتین کو نشانہ بناتے تھے۔
میں نے اپنے دفتر کے اردگرد متعدد بم دھماکے دیکھے اور دو ساتھیوں کو کھو دیا جنہیں کام پر گھر سے نکلتے ہوئے انفرادی طور پر نشانہ بنایا گیا اور گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اسی وجہ سے میں، میری والدہ، والد اور بہن دسمبر 2018 میں برطانیہ پہنچ گئے تھے۔
ہمیں مشرقی لندن منتقل کرنے سے قبل نو ماہ تک ایک ہوٹل میں مقیم رکھا گیا۔ پناہ کے متلاشیوں پر عائد سخت پابندیوں کے تحت کام کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے میں نے تعلیم تک رسائی حاصل کرنے کا عزم کیا اور جامع تحقیق کے بعد مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کی درخواست دی۔ سیاسی پناہ کے متلاشی سرکاری فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں لہذا یہ ایک انتہائی مشکل عمل تھا۔
ستمبر 2020 میں میں یونیورسٹی آف ایسٹ لندن (یو ای ایل) میں این جی او اور ڈویلپمنٹ مینیجمنٹ میں ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک منفرد سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس ماسٹر کورس میں جگہ ملنا جیسے ایک خواب کا پورا ہونا تھا۔
تاہم برطانیہ کی ہر یونیورسٹی پناہ کے متلاشیوں کے لیے وظائف فراہم نہیں کرتی اور بغیر ویزے کے کاغذی کارروائی بہت مشکل تھی۔
بہت سے چیلنجز ہیں، جن میں سے ایک صرف پانچ پاونڈ یومیہ پر گزارہ کرنا (ہوم آفس کی طرف سے رہائش کے علاوہ کھانے، سفر اور رہنے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختص رقم جوکہ رہائش کے علاوہ ملتی ہے۔) کام کرنے سے متعلق بھی پابندیاں ہیں، اگرچہ اب مجھے کام کرنے کا حق مل گیا ہے کیوں کہ ہم ایک سال سے اپنے پناہ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔
بدقسمتی سے شارٹیج آکوپیشن کی فہرست کے تحت کام اب بھی محدود ہے، لہذا یہ بہت مشکل ہے۔ بعض اوقات جب کچھ آجروں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ پناہ کے متلاشی ہیں تو وہ اپنے انٹرویو کی پیشکش واپس لے لیتے ہیں اور یہ بہت مایوس کن محسوس ہوتا ہے جیسا کہ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ میرے پاس تجربہ ہے۔ میں اپنی محدود زندگی کا بہترین فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہوں، لیکن قواعد مجھے روک دیتے ہیں اور رکاوٹوں کا مطلب ہے کہ میں اپنے کیریئر کے اہداف حاصل نہیں کرسکتی۔
پانچ پاونڈ روزانہ پر گزارا کرنے کی وجہ سے ہم انفرادی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم دن میں دو وقت کھانا کھاتے ہیں، ظہرانہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اخراجات کم کیے جاسکیں۔ ہم نے چاکلیٹ یا مہنگی اشیا جیسی اضافی چیزیں ترک کر دی ہیں اور اپنے پاس پہلے سے موجود کپڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم نقد رقم لے کر جاتے ہیں اور تھوک پر اشیاء خرید لاتے ہیں۔
یونیورسٹی شروع ہونے کے بعد، مجھے اور میرے خاندان کو شمال مشرقی ایسیکس منتقل کر دیا گیا، جس سے کیمپس کا سفر ناقابل برداشت ہو گیا، لہذا میں خصوصی طور پر آن لائن تعلیم حاصل کرتی ہوں۔ یہاں ہم بہت زیادہ الگ تھلگ ہیں اور ہمیں لندن میں ملنے والے کھانے کے پارسل بند ہوگئے ہیں۔
یو ای ایل میں میری تعلیم انتہائی بہترین رہی ہے اور یونیورسٹی واقعی میری معاونت کرتی رہی ہے۔ میری رائے اور خیالات پر غور کیا جاتا ہے چاہے میری امیگریشن کی حیثیت کچھ بھی ہو۔ عالمی چیلنجز اور بحرانوں، ترقی کے نظریات اور ان کے پیچھے کام کرنے والوں کے بارے میں سمجھنا اور ترقی، تنازعات اور دیگر انسانی مسائل پر مختلف مباحثوں میں شامل ہونا دلچسپ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں ہمیشہ تنازع کے علاقے میں پیدا ہونے، پرورش پانے اور تعلیم حاصل کرنے کے اپنے تجربات پر غور کرتی ہوں۔ ہمارے پاس پیچھے چھوڑی گئی زندگیوں کے بارے میں بتانے کے لیے بہت سی کہانیاں ہیں۔ میں پناہ کے متلاشیوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں اور ان کی حیثیت سے قطع نظر اس کمیونٹی کی ترقی کرنے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہمیں بغیر کسی پابندی کے اعلیٰ تعلیم تک رسائی کا حق حاصل ہو۔ ہم پہلے ہی بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں اور کمزور ہیں۔
میں چیرٹی سٹار (سٹوڈنٹ ایکشن فار ریفیوجیز) کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اعلیٰ تعلیم تک مساوی رسائی کی مہم چلاتی ہوں اور کنیکٹڈ روٹس بھی، جو پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشی پس منظر کی خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا برطانیہ کی ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا اختیار دیتے ہیں۔
اگرچہ میری زندگی بہت محدود ہے، میں واقعی یہاں اپنے آپ کو گھر میں محسوس کرتی ہوں۔ میں نے بہت سے دوست بنائے ہیں، اور میرے خاندان کو بھی گھر کا احساس ہے۔ میری والدہ اور والد کے دلوں میں سکھ کا احساس ہے کہ ان کی بیٹیاں اپنی صنف سے بالا تر ہو کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ لڑکیاں ہیں۔ میرے والد واقعی میرے سفر کے دوران میرے معاون رہے ہیں۔
ہم اپنے پناہ گزینوں کے درخواست کے بارے میں خبر کے لیے بےچین ہیں اور التوا کی صورت میں انتظار بہت مایوس کن ہے۔ ہمارے پاس کہیں بھی جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ پچھلے تین سالوں سے جب بھی ڈاکیہ اس علاقے میں آتا ہے تو ہماری نظریں لیٹر باکس پر رہتی ہیں۔
میں امید کرتی ہوں کہ میں افغانستان میں پیش آنے والے شدید انسانی بحران کی وجہ سے مستقل طور پر یہاں آئی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب یہ ہمارا گھر اور وہ جگہ ہے جہاں میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔
© The Independent