امریکی افواج افغانستان سے چلی گئیں لیکن ان کے آنے کے بعد دارالحکومت کابل اور کچھ دیگر بڑے شہروں میں سابق امریکی صدر کے نام پر بنے ’بش بازار‘ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ کوئی نام ایک مرتبہ مشہور ہو جائے تو اسے تبدیل کرنا مشکل ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بش بازار کے ساتھ بھی ہے۔
یہاں اگرچہ نئے نام جیسے ’مجاہدین مارکیٹ‘ یا بش بازار کی شہرت سے پہلے کے نام ’بدخشان مارکیٹ‘ کے بورڈز بھی لگائے گئے، لیکن لوگ اب بھی اسے ’بش بازار‘ کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔
گذشتہ دس برس سے بش بازار میں دکانداری کرنے والے محمد سرور کہتے ہیں کہ اس بازار میں زیادہ تر اوریجنل، اچھی کوالٹی اور مناسب قیمت میں امریکی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں، جو زیادہ تر امریکی بیسز جیسے بگرام اور دوسرے اڈوں سے نکالی گئیں، مثلاً ان کے جوتے، بیگز اور کوٹ وغیرہ، جن کی کوالٹی اچھی ہوتی ہے۔
بش بازار صرف کابل میں نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی ہیں۔ جیسے مزار، جلال آباد، قندھار اور ہرات جبکہ بگرام میں تو بش بازار کا مرکز تھا۔
کچھ ایکسپائر اشیاء جن کے استعمال کی مدت ختم ہوچکی ہو، وہ بھی ان بازاروں میں سڑک کنارے بیچی جاتی ہیں۔
بش بازار کے ایک دکاندار قیس نے بتایا: ’صرف امریکی مال نہیں بلکہ سارے مغربی ملکوں کا مال یہاں ملتا ہے۔ یہاں اٹالین، جرمن، فرینچ غرض یہ کہ ہر ملک کا مال ملتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے بتایا کہ اب اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اس لیے لوگوں کا آنا بھی کم ہوگیا ہے، تو کاروبار بھی خراب ہے۔
’بش بازار‘ کی یونین کے صدر حاجی عثمان یہاں 20 سال سے دکانداری کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’چھ سال تک بش بازار ڈیفنس منسٹری کے پاس ہوا کرتا تھا اور جب بازار کو وہاں سے ہٹا دیا گیا تو ہم یہاں آگئے اور گذشتہ 14 سال سے یہاں پر ہیں۔‘
حاجی عثمان نے مزید بتایا کہ بش بازار کا نام اس لیے مشہور ہوا کہ جب امریکی کمانڈ کے تحت مغربی ممالک کی افواج یہاں آئیں تو اس زمانے میں امریکہ کے صدر بش تھے اور یہاں زیادہ تر امریکی مال آتا تھا تو یہ سارا بازار بش بازار کے نام سے مشہور ہوگیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں دکانوں اور سڑک کےکنارے پر فروخت ہونے والا مال امریکیوں کا بچا کچھا آخری مال ہے کیونکہ انہیں افغانستان سے گئے ہوئے اب 14 مہینے ہوگئے ہیں۔
بقول حاجی عثمان: ’امریکی اپنا کچھ مال خود بیچتے تھےکیونکہ ان کا مال جب کنٹینروں میں آتا تھا تو راستے میں کبھی کبھار سپیڈ بریکرز، جنگوں اور یا پھر دوسرے طریقے سے ان کنٹینرز کا سیریل نمبر ادھر ادھر ہو جاتا تھا تو پھر امریکی ان کنٹینرز کے مال کو اپنے گوداموں یا بیس کے اندر نہیں لے جاتے تھے بلکہ ان کے مشیر اور ترجمان سامان کو بازار میں فروخت کرتے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اڈوں سے نکلتے وقت امریکیوں کے پاس ہر چیز تھی اور ظاہر ہے کہ بہت سی چیزیں رہ گئیں اور ان میں سے جو امارت اسلامی کے کام کی چیزیں نہیں تھیں تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے ان بازاروں میں پہنچ کر نیلام ہوگئیں اور اس خریدو فروخت میں دکانداروں نے خوب کمایا بھی لیکن امریکی اجناس ختم ہونے والی ہیں اور بازار مندی کا شکار ہے۔‘
بقول حاجی عثمان: ’عام لوگ معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ پہلےکام کرتے تھے تو تنخواہ لیتے تھے اور ایک بار ضرور اس بازار کا رخ کرتے تھے اور کچھ نہ کچھ خریدتے تھے اور ان کی وجہ سے یہاں کاروبار بھی بہتر تھا لیکن اب حالات اچھے نہیں ہیں۔ اللہ رحم کرے تاکہ ہم اس بری حالت سے نکل کر نارمل حالت کی طرف جائیں۔‘