لکی مروت خودکش حملے میں ایک اہلکار کی موت، متعدد زخمی

مقامی پولیس کے مطابق حملہ اس وقت ہوا جب ایک مشکوک موٹر سائیکل کو ناکہ بندی پر روکا گیا۔ حملہ آور نے فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار کی کوشش کی اور اس دوران اس نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔

ضلع لکی مروت میں پولیس اہلکار یکم دسمبر 2025 کو خود کش دھماکے کے مقام پر کھڑے ہیں (آر پی او لکی مروت)

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پیر کو پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک بڑے خودکش حملے کی کوشش ناکام بنا دی تاہم واقعے میں ایک ہیڈ کانسٹیبل شہید اور پانچ اہلکار زخمی ہو گئے۔

مقامی پولیس کے مطابق حملہ اس وقت ہوا جب ایک مشکوک موٹر سائیکل کو ناکہ بندی پر روکا گیا۔ حملہ آور نے فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار کی کوشش کی اور اس دوران اس نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔

لکی مروت پولیس نے بتایا کہ ’ہیڈ کانسٹیبل علاؤالدین خان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور لکی مروت کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔‘

پولیس حکام کے مطابق حملہ آور کا ممکنہ ہدف ایک عوامی اجتماع تھا جہاں شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نذیر خان نے بتایا کہ پولیس کو معتبر ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ بیٹنی سب ڈویژن کی جانب سے بخمل احمد زئی کی سمت سے ایک مشکوک موٹر سائیکل آ رہا ہے۔ اطلاع کی تصدیق کے بعد علاقے میں فوراً ہائی الرٹ جاری کیا گیا۔

تجوڑی پولیس نے کٹو خیل کے مقام پر ناکہ بندی کر رکھی تھی جہاں دو مشکوک موٹر سائیکل سواروں کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ ان کے فرار کی کوشش پر پولیس نے تعاقب کیا۔ تعاقب کے دوران ایک حملہ آور نے پولیس پر فائرنگ کی جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں اس نے خودکش دھماکا کر دیا۔

زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر ڈی ایچ کیو اسپتال تجازئی منتقل کیا گیا۔ ڈی پی او نذیر خان خود جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں سرچ آپریشن جاری ہے اور شواہد جمع کیے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں اس حملے کی مذمت کی۔

وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہباز شریف نے واقعے میں زخمی افراد کو فوری طبی امداد دینے کی ہدایت کی اور جان سے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت بھی کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعلی خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی ںے بھی لکی مروت میں پولیس موبائل پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

پیر کو جاری بیان میں وزیر اعلیٰ نے کہا: ’پولیس اہلکاروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور صوبائی حکومت پولیس کے ساتھ کھڑی ہے۔ امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، اس قسم کے بزدلانہ حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔‘

اس سے قبل بلوچستان کے ضلع نوکنڈی میں خودکش بمباروں اور مسلح افراد نے گذشتہ رات ایک فوجی تنصیب پر حملہ کیا۔

فوج یا حکومت کی جانب سے اس پر فوری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور حکومت اکثر بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسندوں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

حملوں میں مسلسل اضافے نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کو تناؤ کا شکار کر دیا ہے جبکہ پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔ افغانستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

اگرچہ استنبول میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئے۔ ایران اور سعودی عرب نے تعطل کے شکار مذاکرات کی بحالی میں مدد کی پیشکش کی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ پاکستان دوست ممالک بشمول ایران اور سعودی عرب کی ثالثی کا خیرمقدم کرے گا لیکن اسلام آباد صرف یہی چاہتا ہے کہ کابل ٹی ٹی پی اور دیگر جنگجوؤں کو لگام ڈالے اور انہیں افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر حملوں کے لیے استعمال کرنے سے روکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان