ڈراما ’جھوم‘: زندگی آوارگی ہے

جن کا خیال ہے کہ مرد کو درد نہیں ہوتا وہ یہ ڈراما دیکھ لیں۔

ڈرامے میں ملک کے دو تین فیصد طبقے والوں کی بگڑی اولادوں کی کہانی کی عکاسی کی گئی ہے (سیونتھ سکائی)

ڈراما ’جھوم‘ کے بہت چرچے سنے تو ہم بھی ڈراما دیکھنے پہ مجبور ہو گئے۔

 پہلے تو بڑی سکرین جیسے سین نے سب سنی سنائی باتیں بھلا دیں اور وہ خواب تعبیر ہوتا دکھائی دیا جس کا بہت یقین ہے کہ زمین جلد اپنے راستے بدلنے والی ہے۔ سب ٹیبوز ٹوٹنے والے ہیں۔

ایکشن فلم جیسے منظرنوجوانوں کو راغب کرتے ہیں تو ساتھ ہی پروفیسر توقیر اس رغبت کے زخم پہ مرہم لگا دیتے ہیں۔ یہ تضاد کا بہت اچھا امتزاج ہے۔

چراغ تلے اندھیرا کیسے رہ جاتا ہے؟ دوسروں کو زندگی دینے والے اپنی زندگی کیوں نہیں جی سکتے؟ زندگی آوارگی کیسے بنتی ہے؟ جنون انسانیت کیسے چھین لیتا ہے؟ جذباتیت میں انسانیت کیسے کھو جاتی ہے؟ یہ باتیں سمجھنے کے لیےڈراما ’جھوم‘ دیکھا جا سکتا ہے۔

جو اس وقت ہر نوجوان کے دماغ میں جھوم رہا ہے۔

’اپنے بٹیوں کو مرد نہیں، انسان بنایے۔‘

 اس ڈرامے میں ایسے ہی چار پانچ لڑکے ہیں جو مرد بن گئے ہیں لیکن کیسے بنے ہیں؟

 اس کا فلسفہ بیان کرنے کے لیے ایک بہت جاندار کردار پروفیسر توقیر کا ہے جو ہزاروں لوگوں، خصوصی نوجوانوں کا جہاندیدہ معلم ہے، لیکن اس کا اپنا اکلوتا انجینیئر بیٹا آریان اپنی ڈگری اور وقت نہ صرف ضائع کر رہا ہے بلکہ وہ ایک بدمزاج، غصیلا اورجنگ جو انسان بن چکا ہے۔

اس کے مزاج کی وجہ سے لوگ اسے دور ہی رہتے ہیں۔ ایک اینگری ینگ مین کی کہانی ہے جس کا باپ دنیا بھر میں غصہ اور جذبات کنٹرول کرنے پہ لیکچرز دیتا ہےاور اس کے علم کی شہرت دور دورتک ہے لیکن وہ اپنے بیٹے کو اس مرض سے نہیں بچا سکا۔

ڈاکٹر توقیر کو زندگی کے تمام فلسفوں پہ عبور ہے لیکن وہ ان پہ خود عمل نہیں کر سکے، میاں بیوی کے رشتے کی تمام پیچیدگیاں وہ سمجھتے ہیں لیکن اپنی بیوی، ان کو چھوڑ کر چلی گئی ہے۔

آریان کو ماں کی اس جدائی نے باپ سے بھی دور کر دیا اور ایک جنونی انسان بھی بنا دیا۔ وہ جیل بھی رہا اور مینٹل ہسپتال میں بھی زیر علاج رہا۔ یہاں یہ واضح ہے کہ ہم دماغی علاج کو علاج سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

 کہانی آگے چل کے بتائے گی کہ آریان کا علاج ہو چکا تھا اس لیے وہ ان قباحتوں سے بچ گیا جس دلدل میں شیری پھنسنے جا رہا ہے۔

 ڈرامے میں ملک کے دو تین فیصد طبقے والوں کی بگڑی اولادوں کی کہانی ہے۔ اس جنون کی کہانی ہے جو دولت اورمحرومیوں سے جنم لیتی ہے۔

دوسرا چراغ ڈاکٹر مریم اور اندھیرا اس کا بھائی شیری ہے۔ والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنے اکلوتے اور چھوٹے بھائی کی نہ صرف کفیل ہے بلکہ ماں باپ بھی ہے۔ وہ پوری کوشش کرتی ہے کہ اس کا بھائی تعلیم حاصل کر کے کسی اچھے مقام پہ چلا جائے مگر اس کا بھائی ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔

وہ بھی غصیلا، جنگ جو، ضدی، انا پرست انسان ہے۔ جوا، شراب ، اوباش پن، مار دھاڑ سب اس کے اور اس کے دوستوں کے لیے ایڈ ونچر اور مردانگی ہے۔

ڈاکٹر مریم کوجب پتہ چلتا ہے ٹینا کو گولی اس کے بھائی کی پستول سے لگی تو وہ اسے پولیس کے حوالے کروا دیتی ہے ساتھ ہی اس کے دوست بھی گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن ایک وزیر صاحب کی سفارش پہ سب کی ضمانت ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر مریم صرف اس کو سدھارنا چاہتی تھی، یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ غلط راہ پہ ہے لیکن اس واقعے سے شیری نے اپنے دل میں کینہ بھر لیا ہے۔ وہ آریان سے اس بےعزتی کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے بہن پہ غصہ بھی ہے۔ بظاہر وہ بہن کا ہمدرد لگ رہا ہے لیکن وہ اپنا بھی مخلص نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس آگ میں اب وہ اپنی بہن کے جذبات سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔

ڈاکڑ مریم آریان سے عمر میں بڑی ہے اس لیے وہ اسے اپنے بھائی کا ہم عمر سمجھ کر اس کشش کو رد کر دیتی ہے جو اسے محسوس ہوئی، لیکن آریان اور مریم کے گرد دوستوں نے اس ٹیبو کو توڑ دیا۔

وقت نے سچائی آشکار کر دی ہےاور پروفیسر توقیر نے ایک سمجھ دار باپ کی طرح اس رشتے کی راہ بنائی ہے، یوں باپ اور بیٹا ایک محبت کی وجہ سے قریب آ گئے۔

ڈاکٹر مریم آریان سے اس لیے بھی متاثرہوئی ہے کہ ٹینا پہ جس طرح اس کے بھائی اوراس کے دوستوں نے حملہ کیا تھا یونہی اس کے سابقہ منگیتر کے ساتھ اس پہ حملہ ہوا تھا۔ اس کا منگیتر اسے حملہ آوروں کے پاس چھوڑ کر اپنی جان بچا کر نکل گیا۔ آریان نے ایسا نہیں کیا۔

بہت پرانی متھ ہے کہ عورت کو بہادر مرد پسند ہیں۔ یہ فطرت ہے۔ بزدل مرد اس کے دل سے اتر جاتا ہے۔ ڈاکٹر مریم کے ماضی اور حال میں بزدل مرد ہیں اس لیے آریان کے جنون کے باوجود وہ اسے پسند کرنے لگتی ہے اس نے آریان کی محبت کو قبول کیا اورپروفیسر توقیر رشتہ لے کر آ گئے ہیں، مگر شیری کے سر پہ بدلے کا جنون سوار ہے۔

ڈرامے میں غیر منطقی سے جھگڑالو کردار نہیں دکھائے گئے، اپنی کمی کو خوبی نہیں دیکھا یا گیا، انسان کو فرشتہ نہیں بنایا گیا۔

سب کردار انسان ہیں۔ ان کے اندر کا حیوان بازی کیسے لے گیا ہے اس کی وجہ بھی ساتھ ساتھ بتائی جا رہی ہے۔

کراچی کے حسین مناظر دکھائی دیتے ہیں لیکن بلوچستان کے خوبصورت صحراؤں کی عکس بندی نے اس کی سکرین اور کہانی کی وسعت کو بہت بڑا کر دیا ہے۔

ڈراما ہاشم ندیم نے لکھا ہے۔ سین کی بنت اور کردار کی بھاگ دوڑ پر ان کو بہت عبور ہے۔ ان کے مردانہ کرداروں میں مرد کے مسائل اور اس کا درد ملتا ہے۔ جن کا خیال ہے مرد کو درد نہیں ہوتا وہ ہاشم ندیم کے ڈرامے دیکھ لیں۔

مرد کو درد اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ اس کو ہم رونے کی، جذبات کے اظہار کی، نرمی کی اجازت نہیں دیتے۔ اس سب فلسفے کو سادہ لفظوں میں سمجھانے کے لیے پروفیسر توقیر کا کردار ایک مفکر، ایک معلم کے طور پہ شامل کیا گیا ہے۔

ڈراما سیونتھ سکائی کی پروڈکشن ہے اور ہر پل جیو سے نشر کیا جا رہا ہے۔ ہر کردار اپنی جگہ بھرپور نبھا رہا ہے لیکن عثمان پیرزادہ، زارانور عباس اور ہارون قادوانی چھائے ہوئے ہیں۔

موسیقی اور خاص طور پہ بیک گراؤند میوزک بہت عمدہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ