پنجابی میڈیا کی مارکیٹ آئندہ برسوں میں مزید بڑھے گی

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے جس قدر پنجابی زبان نے ترقی کی ہے اس کا بڑا حصہ سٹیج ڈراموں، لوک گیت، شاعری، ٹیلی ویژن پر ڈراموں، فلموں اور میڈیا پر خصوصی پنجابی پروگراموں کے مرہون منت ہے۔

انڈین پنجابی اداکار گپی گریوال اور اداکارہ سروین چاولہ چار فروری 2013 کو امرتسر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا سے بات کر رہے ہیں (نریندر نانو/ اے ایف پی)

پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، ساتویں مردم شماری کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے، جس کی آبادی 12 کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار 922 ہو گئی ہے، اور اسی حساب سے پنجابی بولنے والوں کی تعداد بھی پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی، تو 2046 میں یہ دو گنا ہو جائے گی، یعنی 24 کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔

اگر برصغیر کی بات کی جائے تو یہاں (ہندی/اردو اور بنگالی) کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے۔ یہ زبان دریائے سندھ سے دریائے جمنا اور وادی نیلم سے وادی سندھ تک کے وسیع و عریض علاقوں میں بولی جاتی ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے پنجاب کے علاوہ کینیڈا میں بھی اس زبان کے بولنے والے پاکستانی اور سکھ موجود ہیں۔ اس کے رسم الخط میں شاہ مکھی اور گورمکھی شامل ہیں۔ پنجابی زبان کا ایک معیاری لہجہ ہے جسے ماجھی کہتے ہیں، جبکہ آٹھ ضمنی اور 31 ذیلی لہجے ہیں، جن میں ڈوگری، پہاڑی، پوٹھوہاری، ہندکو، شاہ پوری (سرگودھا/خوشاب)، جھنگوچی اور دیگر شامل ہیں۔

اس وقت پنجابی سمجھنے والوں کی تعداد بولنے والوں سے بھی کہیں زیادہ ہے، کیونکہ بہت سے اردو بولنے والے، سندھی، اور حتی کہ پشتو بولنے والے بھی پنجابی سمجھتے ہیں۔ ورلڈ ڈیٹا ویب گاہ کے مطابق یہ دنیا کی دسویں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔

پاکستان میں پنجابی کی ترویج اور ترقی

پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے جس قدر پنجابی زبان نے ترقی کی ہے اور جس طرح پنجابی زبان کی ملک بھر میں ترویج ہوئی ہے، اس کا بڑا حصہ سٹیج ڈراموں، لوک گیت، شاعری، ٹیلی ویژن پر ڈراموں، فلموں اور میڈیا پر خصوصی پنجابی پروگراموں یا مزاحیہ پروگراموں کے مرہون منت ہے۔

لیکن پنجابی لکھت کے حوالے سے زیادہ کام نہیں ہو پا رہا۔ یعنی اگر اخبارات و جرائد کی بات کی جائے تو دو تین اخبارات ہی موجود ہیں، جن میں ’لہریں‘، ’ساحل‘ سرفہرست ہیں اور کچھ مواد ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم پر ضرور موجود ہے جس سے پنجابی کو ترویج ملی ہے۔

ایک بات قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ انڈین پنجاب کی فلم انڈسٹری نے پنجابی زبان کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے خاص کلچر کے ساتھ پنجابی فلموں میں دونوں ممالک کے اداکار کام کرتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں اب انڈین اور پاکستانی پنجاب کی فلموں سے پنجابی زبان کو مزید تقویت ملی ہے۔

پنجابی کے بے شمار شعرا میں سے میرے مطابق منیر نیازی اور استاد تجمل کلیم کا نام سرفہرست ہے۔

منیر نیازی لکھتے ہیں:

سورج چڑھیا پچھم تُوں
تے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگیا،
کوئی وی کم نہ ہویا

اور اجمل کلیم نے لکھا ہے:

مرن توں ڈردے او بادشاہو
کمال کر دے او بادشاہو

برصغیر کے گائکوں نے پنجابی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ استاد اسد امانت علی خان سے لے کر حدیقہ کیانی اور پھر ہنس راج سے لے کر مس پوجا تک، سب ہی پنجابی کو ہر رنگ میں گانے والے ہیں۔

پاکستان میں میڈیا پر پنجابی

میڈیا کی بات کی جائے تو اس وقت میڈیا پر پنجابی پروگرام ہر ٹیلی ویژن چینل کا لازمی حصہ ہیں۔ کچھ پروگرام نصف پنجابی ہیں تو کچھ اب مکمل طور پر پنجابی ہیں۔

’سماء ٹی وی‘ اور ’سنو ٹی وی‘ کے علاوہ فیصل آباد کا ’سٹی 41‘، اور لاہور کا ’سٹی 42‘ پر خاص طور پر پنجابی پروگرام کو عوام میں بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ سٹی نیٹ ورک پنجابی کی ترویج کے لیے اہم کام کر رہا ہے اور اس نیٹ ورک کے بانی محسن نقوی ہیں، جو اس وقت پاکستان کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ خاص طور پر لاہور میں ’لاہور رنگ‘ ٹیلی ویژن چینل ہے اور ’لاہور نیوز‘ چینل بھی پنجابی پروگراموں کو پیش کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بی بی سی نے پنجابی کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں اہم بلاگز یا آرٹیکل کو پنجابی زبان میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے میڈیا کا ہر چینل کچھ نہ کچھ مواد کسی نہ کسی صورت پنجابی میں نشر کر رہا ہے اور وجہ وہی ہے: پنجابیوں کی بڑی تعداد، کیونکہ یہ مواد اب سرحد پار بھی دیکھا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے۔

پاکستانی نیوز چینل سنو نیوز کی اینکر شہر بانو اعوان سے پنجابی کے حوالے سے بات کی، جو اس وقت پنجابی پوڈ کاسٹ کر رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے میڈیا کے ہیڈ کو پنجابی سے لگاؤ تھا، ہم نے پہلے ایک پروگرام، پھر پوڈکاسٹ شروع کیا، جس کا رسپانس بہت ہی بہتر آ رہا ہے، حتی کہ گذشتہ عیدالفطر اور آنے والی عیدالضحیٰ پر خاص طور پر پنجابی کے شو پرائم ٹائم میں آن ایئر کیے جائیں گے کیونکہ نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر رہنے والے پنجابی بھی اس میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔

ویور شپ کے ساتھ مالی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ شہر بانو کہتی ہیں کہ پورا پنجابی ویب چینل بھی بنایا گیا ہے، وجہ صرف پنجابی بولنے اور سننے والوں کی دلچسپی ہے۔

اب پنجابی کے الفاظ پاکستان میں رہنے والے ہر فرد تک پہنچ رہے ہیں، اور اس سب میں زیادہ کردار پرنٹ کے بجائے ٹیلی ویژن یا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا ہے، جہاں پنجابی لوک گیت، مزاح، شاعری، ڈرامے اور فلمیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر پنجابی کانٹنٹ بھی اب بڑی تعداد میں موجود ہے۔

چین کا سرکاری میڈیا اور پنجابی زبان

چین کا سی ایم جی یعنی چائنا میڈیا گروپ (سی جی ٹی این، سی آر آئی اور سی سی ٹی وی) بھی اب پنجابی زبان میں چینی خبریں اور چین سے متعلق ویڈیوز کا سلسلہ شروع کر چکا ہے، جو خاص طور پر پنجابی ناظرین کے لیے ایک تحفہ ہو گا کہ وہ اپنی مادری زبان میں چین سے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں گے اور چین کو دیکھ سکیں گے۔ تاحال یہ شروعاتی مراحل میں ہے لیکن یقیناً مستقبل میں چینی پنجابی میڈیا بھرپور طریقے سے پنجابیوں کے دل کی آواز بننے جا رہا ہے۔

ریاست پنجابی کی ترویج کے اقدامات اُٹھا رہی ہے

اس کے علاوہ ریاست بھی اب پنجابی زبان کی ترویج کے لیے کام کرتی نظر آ رہی ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب کلچر ڈے کا باقاعدہ آغاز کیا، جو اب سالانہ طور پر جاری ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ایم پی ایز کو پنجابی میں تقاریر کرنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ سکولوں میں پنجابی زبان کو لازمی قرار دینے کی ایک متفقہ قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔ لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) میں بھی بین الاقوامی پنجابی کانفرنسز ہو رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجابی زبان اور تدریس

پنجاب میں پرائمری سطح پر تعلیم کی بات کی جائے تو فی الحال کوئی خاطر خواہ نمونہ پیش نہیں کیا جا سکتا، لیکن یونیورسٹیوں میں پنجابی پر کام ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں پنجابی کو بطور کورس شامل کیا جا چکا ہے، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پنجابی میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری تک تعلیم دی جاتی ہے، اور تو اور اب غیر پنجابی افراد بھی پنجابی زبان سیکھنے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ خاص طور پر اردو بولنے والے خاندان پنجابی زبان کو سیکھتے نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک بات قابل توجہ ہے کہ نجی یونیورسٹیوں میں بھی پنجابی کو بطور مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ایک صحافی آسیہ انصار، جو کہ خالصتاً اردو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ان کی بیٹی مریم نے اپنی بی ایس کی تعلیم میں پنجابی کو بطور مضمون پڑھا۔

میرا سوال تھا کہ آخر کیسے اور کیونکر یہ ہوا؟ کیسے خیال آیا پنجابی پڑھنے کا؟ اس کے جواب میں مریم کا کہنا تھا کہ ’ ہماری یونیورسٹی علاقائی زبانوں کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ میرے پاس چوائس تھی کہ میں سندھی، پشتو یا پنجابی پڑھوں، تو میں نے پنجابی کو منتخب کیا کیوں کہ اس سے میں پاکستان کے سب سے بڑے علاقے کے لوگوں سے براہ راست رابطہ کر پاؤں۔ تو میں نے پنجابی بطور مضمون تین سیمسٹرز میں پڑھی۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اردو کے زیادہ قریب ہے، تو پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔‘

تو اگر درج ذیل عوامل اور پنجابی کے پنپنے کو دیکھا جائے تو یہ کہنا آسان ہو جاتا ہے کہ آئندہ برسوں میں پنجابی زبان مزید ترقی کرے گی، اور دنیا میں پنجابی بولنے والے افراد کا ایک بڑا حصہ موجود ہو گا۔ اور یقیناً یہ نشریاتی اداروں کے لیے بھی ایک وسیع مارکیٹ ثابت ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ