انڈین پنجابی فلموں کے پاکستانی اداکاروں کو کیا نقصان ہو گا؟

انڈین پنجابی فلموں کا اوسطاً بجٹ 5 کروڑ سے 15 کروڑ بھارتی روپے تک ہوتا ہے، جو اپنی لاگت سے زیادہ کاروبار کرنے میں کامیاب بھی رہتی ہیں۔ فلموں کی عکس بندی کے لیے دبئی، کینیڈا، امریکہ، لندن یا کوئی اور یورپی ملک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

2022 میں ریلیز ہونے والی انڈین پنجابی فلم، ’ماں دا لاڈلا‘ کا پوسٹر جس میں پاکستانی اداکار نمایاں ہیں (ویہلی جنتا فلمز)

اب ایسے میں جب فواد خان کی بالی وڈ فلم عبیر گلال پر انڈیا میں پابندی لگ چکی ہے اور پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کی تصاویر فلمی پوسٹرز سے ہٹائی جا رہی ہیں، تو سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ انڈیا کی ان پنجابی فلموں کا کیا بنے گا جن میں پاکستانی اداکار شامل ہیں؟

یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ انڈیا کی پنجابی زبان کی فلموں کو پسند کرنے والا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ یہ پنجابی زبان کی فلمیں صرف انڈیا میں ہی نہیں بلکہ ان ممالک میں زبردست پذیرائی حاصل کرتی ہیں جہاں پاکستانی یا انڈین شہری آباد ہیں جو پنجابی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔ جس طرح جنوبی انڈیا اور بالی وڈ فلموں کی بڑی انڈسٹری بنی ہوئی ہے، اسی طرح پنجابی زبان کی فلموں نے ہر دور میں اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے۔ حالیہ برسوں میں انڈین پنجابی فلموں نے اپنی پروڈکشن، کہانیوں اور پھر اداکاروں کی وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ عالم یہ ہے کہ پنجابی زبان کی فلموں کے ہیروز اور گلوکاروں کو بطور خاص بالی وڈ فلموں میں شامل کیا جا رہا ہے۔

ان انڈین پنجابی فلموں کا خاصہ یہ بھی رہتا ہے کہ ان میں ہر دوسری فلم میں ایک یا دو پاکستانی اداکاروں کی موجودگی لازمی ہوتی ہے، جس سے ان فلموں کو پسندیدگی کی سند حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انڈین پنجابی فلموں کو دنیا بھر میں منفرد اور اچھوتی پہچان دلانے میں پاکستانی اداکاروں کے کردار کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان فلموں میں زیادہ تر پاکستانی اسٹیج یا تھیٹر کے مزاحیہ فنکار شامل رہے ہیں جنہوں نے اپنی بے ساختہ اور برجستہ اداکاری اور جملوں سے ان فلموں کو نہ صرف کامیاب کرایا بلکہ کمائی کی دوڑ میں بھی سرخرو کیا۔

یہی وجہ ہے کہ افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی، سہیل احمد، نسیم وکی اور ظفری خان کے بغیر انڈین پنجابی فلموں کا تصور ممکن نہیں۔ انڈین پروڈیوسرز پاکستانی اداکاروں کو اس لیے بھی اپنی فلموں کا حصہ بناتے ہیں کہ ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ طنز و مزاح سے بھرپور مکالمات کی ادائیگی میں پاکستانی اداکاروں کی ٹائمنگ لاجواب ہوتی ہے۔ چونکہ ان فلموں کی نمائش صرف انڈیا تک محدود نہیں، تو دیارِ غیر میں بسے پاکستانی فلم بین اپنے ہم وطن اداکاروں کی پرفارمنس کا لطف اٹھانے کے لیے سنیما گھروں تک آتے ہیں، جبھی پروڈیوسرز کو بھی مالی فائدہ ہوتا ہے۔

پنجابی زبان کی فلموں میں پاکستانی اداکاروں کی مقبولیت اور شہرت ایسی ہے کہ ہر انڈین پروڈیوسر ان کے بغیر فلم بنانے کا سوچ نہیں سکتا۔ اگر آپ پنجابی زبان کی گذشتہ ایک دہائی کی بہترین کمائی والی فلموں کا جائزہ لیں گے تو ابتدائی تین فلموں جٹ اینڈ جیولٹ 3، کیری آن جٹا 3 اور چل میرے پت 2 میں پاکستانی اداکار ناصر چنیوٹی، افتخار ٹھاکر اور ظفر خان کی موجودگی رہی۔

پنجابی فلموں کے انڈین اداکاروں کے پرستاروں کا بھی بڑا حلقہ ہے۔ اب چاہے دلجیت دوسانجھ ہوں یا ایمی ورک، گپی گریوال، گرپیت گوگی یا پھر سونم باجوہ یا شہناز گل، ان کو بھی وہی شہرت اور مقبولیت حاصل ہے جو بالی وڈ کے ستاروں کو ہے۔ یہی نہیں، انڈیا میں پاکستانی اداکاروں کے چاہنے والے بھی موجود ہیں جو ان کی فلمیں ہی نہیں بلکہ پاکستانی سٹیج ڈراموں کو صرف ان ستاروں کی وجہ سے دیکھتے ہیں۔

صرف کامیڈین ہی نہیں، پاکستانی رومانٹک ہیروز کو بھی خاصی پذیرائی ملتی رہی ہے۔ اس کی مثال گذشتہ سال عمران عباس کی فلم جی وے سوہینا جی رہی، جس کے پاکستانی خوبرو ہیرو موضوعِ بحث رہے۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ان فلموں کی عکس بندی انتہائی تیزی سے کی جاتی ہے۔ عموماً ایک فلم کے ہٹ ہو جانے کے بعد ان کے سیکوئل بنانے میں ہدایتکار کی توجہ خاص رہتی ہے، جیسے جٹ اینڈ جیولٹ، چل میرے پٹ، کیری آن جٹا یا سردار جی نمایاں ہیں، جن کے کئی حصے آ چکے ہیں۔ ان سیکوئلز میں کم و بیش اسی سٹار کاسٹ کو دہرایا جاتا ہے جو پہلے حصوں میں شامل ہو۔

انڈین پنجابی فلموں کا اوسطاً بجٹ 5 کروڑ سے 15 کروڑ بھارتی روپے تک ہوتا ہے، جو اپنی لاگت سے زیادہ کاروبار کرنے میں کامیاب بھی رہتی ہیں۔ فلموں کی عکس بندی کے لیے دبئی، کینیڈا، امریکہ، لندن یا کوئی اور یورپی ملک کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک میں پاکستانی اداکاروں کی رسائی آسانی سے ہوتی ہے اور مختلف شفٹوں میں انتہائی مختصر عرصے میں ان فلموں کو مکمل کر لیا جاتا ہے۔ بیشتر فلموں کے پروڈیوسرز یا ہدایتکار انڈین نژاد برطانوی بتائے جاتے ہیں۔

حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے بعد اور انڈین انتہا پسندوں کی مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے اب انڈین پنجابی فلموں کے پروڈیوسرز بھی پریشان ہیں کہ وہ اپنی ان فلموں کا کیا کریں جن میں پاکستانی اداکار شامل ہیں۔

بالخصوص ایسے میں جب اگست میں ایک بڑے بجٹ کی، بڑی کاسٹ والی فلم چل میرے پت کا چوتھا حصہ آنے والا ہے، جس کے اب تک کے تینوں حصوں نے غیر معمولی کاروبار کیا تھا، جبکہ اس تخلیق میں افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی اور اکرم اداس شامل رہے ہیں۔

حال ہی میں افتخار ٹھاکر نے پاکستان انڈیا کشیدگی پر یہ بیان دیا کہ ’اگر تم ہوا کے ذریعے آؤ گے تو بکھر جاؤ گے، پانی کے راستے آؤ گے تو ڈوب جاؤ گے، اور زمین سے آؤ گے تو دفن کر دیے جاؤ گے۔‘ اس بیان پر ان کے ساتھ کام کرنے والے انڈین پنجابی فلم انڈسٹری کے کئی فنکار ناراض ہوگئے۔ جس کے بعد افتخار ٹھاکر نے اپنے بیان کی یہ وضاحت بھی کی کہ ان کے الفاظ کا ہدف وہ تنگ نظر اور متعصب انڈین رہنما تھے جو دونوں ممالک میں جنگ اور نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔

افتخار ٹھاکر نے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ وہ اب کسی انڈین پنجابی فلم میں کام نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ چل میرے پت 4 میں نہ صرف ان کے بلکہ ناصر چنیوٹی کے کردار کو اب کس طرح قطع و برید کا نشانہ بنایا جائے گا؟ یہاں یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فلم کی نمائش کو وقتی طور پر مؤخر کر دیا جائے اور جب دونوں ملکوں کے حالات نارمل ہو جائیں تو فلم کو پیش کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف ایک یہی فلم نہیں، کئی ایسے منصوبے اب التوا کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں جن میں پاکستانی اداکار قسمت آزما رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر پنجابی زبان کی فلم سردار جی 3 میں کام کر رہی ہیں، لیکن پاکستان انڈیا کشیدگی کی بنا پر اب اداکار اور گلوکار دلجیت دوسانجھ کی اس فلم سے ہانیہ عامر کو محروم کر دیا گیا۔ بھارتی میڈیا کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ فلم سے ہانیہ عامر پر فلمائے گئے مناظر بھی نکال دیے گئے ہیں۔ فی الحال فلم کی عکس بندی تعطل کا شکار ہے۔

اسی طرح ایک اور پنجابی زبان کی فلم انا نہ رہنا، سوہنا نی آندا جس میں عمران اشرف اور ناصر چنیوٹی شامل تھے، اس فلم کی نمائش رواں ماہ ہونی تھی لیکن تازہ ترین صورتِ حال کی بنا پر اسے مؤخر کر دیا گیا ہے۔

پاکستانی اداکارہ کنزہ ہاشمی کی ایک پنجابی انڈین فلم حال کی اے، جس میں وہ گلوکار اور اداکار جیسی گل کے ساتھ بطور ہیروئن کام کر رہی تھیں، ایک طویل عرصے سے یہ فلم اعلان تک محدود ہے اور حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے بعد تو امکان یہی ہے کہ یہ مزید وقت لے گی۔

انڈین پنجابی فلم انڈسٹری میں پاکستانی اداکاروں کی موجودگی نے ہمیشہ فلموں کو ایک نئی توانائی دی ہے۔ چاہے وہ کامیڈی ہو یا جذباتی یا رومانی مناظر، پاکستانی فنکاروں کے پردۂ سیمیں پر جلوہ افروز ہونے سے جیسے ان فلموں کو اور زیادہ کشش مل جاتی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ انڈین پنجابی فلموں میں پاکستانی اداکاروں پر حالیہ بندش کب تک برقرار رہتی ہے؟ اور کب تک انڈین فلم بین، پاکستانی فنکاروں کے فن سے دور رہتے ہیں؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ