آج کا دور کنیکٹڈ ورلڈ کا ہے، جہاں ہم دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے سات دن اور سال کے 365 روز آن لائن رہتے ہیں۔
موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، سمارٹ واچز اور اب اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس جیسی ٹیکنالوجیز نے ہمیں ہر لمحہ کسی نہ کسی طرح کنیکٹ رکھا ہوا ہے۔ بظاہر یہ سہولت ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک خاموش، مگر سنگین مسئلہ بھی پروان چڑھ رہا ہے، یعنی ڈیجیٹل فٹیگ۔
ڈیجیٹل فٹیگ ایک ایسی ذہنی اور جسمانی کیفیت ہے جو طویل وقت تک مسلسل ڈیجیٹل سکرینز کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ علامات میں آنکھوں کی خشکی، نیند کی کمی، توجہ کی کمی، چڑچڑاپن، اضطراب اور کبھی کبھار ڈپریشن جیسی کیفیات شامل ہیں۔
یہ محض ایک اصطلاح نہیں، بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کی طرح لاکھوں پاکستانیوں کی روزمرہ حقیقت بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر کرونا وبا کے بعد، جب زندگی کا ہر پہلو — تعلیم، دفاتر، سماجی روابط، حتیٰ کہ عبادات بھی — آن لائن ہو گئی تھیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل تھکن کا بحران رفتہ رفتہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیلی نار کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 130 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہر دوسرا شہری کسی نہ کسی شکل میں سوشل میڈیا یا آن لائن پلیٹ فارمز سے وابستہ ہے۔
خصوصاً نوجوان نسل، جو یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹِک ٹاک، واٹس ایپ اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر گھنٹوں صرف کرتی ہے، شدید طور پر ڈیجیٹل فٹیگ کا شکار ہو رہی ہے۔ طلبہ و طالبات آن لائن کلاسز اور اسائنمنٹس کے دباؤ میں جبکہ دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین مسلسل زوم، ٹیمز یا واٹس ایپ پر دستیابی کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں۔
تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو کرونا کے دوران آن لائن تعلیم نے وقتی طور پر سہولت فراہم کی، مگر اس کے بعد بھی مسلسل ڈیجیٹل انحصار نے بچوں، والدین اور اساتذہ سب کو متاثر کیا۔ بچے دیر تک موبائل فون یا لیپ ٹاپ سکرین پر لگے رہتے ہیں، جس سے ان کی نیند، جسمانی سرگرمیاں اور رویہ متاثر ہو رہا ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز میں بچوں کی توجہ مرکوز نہیں ہوتی، وہ جلدی تھک جاتے ہیں اور سیکھنے کی صلاحیت میں کمی آ رہی ہے۔
کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے بھی یہ مسئلہ شدید ہے۔ اب واٹس ایپ یا ای میل کا جواب نہ دینا ’غیر ذمہ داری‘ سمجھا جاتا ہے، چاہے رات کے 10 بجے ہی کیوں نہ ہوں۔ ورک فرام ہوم کا مطلب اکثر ورک آل دا ٹائم بن گیا ہے۔
ڈیجیٹل فٹیگ کی سب سے بڑی وجہ باؤنڈریز یا حدوں کا ختم ہو جانا ہے۔ دفتر کا وقت ختم ہونے کے باوجود لوگ میٹنگز، ای میلز اور گروپ چیٹس میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ؟ نیند کی کمی، خانگی مسائل، کام سے نفرت اور برن آؤٹ ہے۔
سوشل میڈیا، جو کسی زمانے میں تفریح یا رابطے کا ذریعہ تھا، اب بہت سے لوگوں کے لیے ایک نفسیاتی دباؤ بن چکا ہے۔ مسلسل نوٹیفیکیشنز، لائکس، کمنٹس اور موازنے کے ماحول نے انسان کی خود اعتمادی کو کھا لیا ہے۔
نوجوانوں میں خاص طور پر سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال نے اپنی ہی قدر کو کم سمجھنے کے بحران کو جنم دیا ہے۔ ’FOMO‘ یعنی ’Fear of Missing Out‘ نے دماغ کو ہر وقت چوکس رکھا ہوا ہے۔ انسٹاگرام یا ٹِک ٹاک پر دوسروں کی ’کامیاب‘ زندگی دیکھ کر اکثر لوگ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں، جو کہ ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
ڈیجیٹل فٹیگ صرف ایک ذہنی مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے جسمانی اثرات بھی نہایت نمایاں اور پریشان کن ہوتے ہیں، خصوصاً ان افراد کے لیے جو طویل وقت سکرینز کے سامنے گزارتے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ساتھ یہ جسمانی علامات عام ہوتی جا رہی ہیں، جنہیں اکثر لوگ نظرانداز کر دیتے ہیں۔
سب سے عام جسمانی علامت آنکھوں کی خشکی، جلن اور دھندلا پن ہے، جسے طبی اصطلاح میں ’ڈیجیٹل آئی سٹرین‘ کہا جاتا ہے۔ جب انسان طویل وقت مسلسل موبائل، لیپ ٹاپ یا ٹی وی سکرین پر دیکھتا ہے تو پلکیں جھپکنے کی شرح کم ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے آنکھوں کی نمی متاثر ہوتی ہے اور خشکی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نظر کا دھندلا ہونا، سر درد اور آنکھوں میں جلن جیسی شکایات بھی سامنے آتی ہیں۔
اس کے علاوہ گردن اور کندھوں کا درد بھی ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگ جب مسلسل جھک کر موبائل فون یا لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں تو گردن کی پوزیشن غیر قدرتی ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف گردن میں کھنچاؤ آتا ہے بلکہ کندھوں اور اوپری کمر میں بھی درد پیدا ہوتا ہے۔ طویل مدت تک ایسی پوزیشن اپنانا ریڑھ کی ہڈی کی ساخت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
ڈیجیٹل تھکن کا ایک اور اہم جسمانی اثر نیند کی خرابی ہے۔ سونے سے پہلے موبائل فون یا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی عادت، نیند کے نظام کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ خاص طور پر موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات سے خارج ہونے والی نیلی روشنی دماغ میں ایک اہم ہارمون میلٹونن کی پیداوار کو کم کر دیتی ہے۔ میلٹونن وہ ہارمون ہے جو نیند لانے اور سونے جاگنے کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب اس کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو نیند آنے میں دیر لگتی ہے، نیند غیر مستحکم ہوتی ہے اور انسان تھکن کے باوجود پرسکون نیند نہیں لے پاتا۔
یہ صورت حال طویل مدت میں جسمانی تھکن، روزمرہ کے معمولات میں کمی اور صحت کے دیگر مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ میں یہ مسئلہ زیادہ شدت سے پایا جا رہا ہے، کیونکہ وہ دن کا زیادہ تر حصہ آن لائن کلاسز، سوشل میڈیا اور گیمز میں مصروف رہتے ہیں۔
لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ ڈیجیٹل آلات کے استعمال میں توازن رکھا جائے اور سکرین ٹائم کو کم کر کے جسمانی صحت کا خاص خیال رکھا جائے، تاکہ ڈیجیٹل دنیا میں جُڑے رہنے کے باوجود ہم اپنی صحت کو نظرانداز نہ کریں۔
پاکستانی خواتین، جو گھر اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ آن لائن تعلیم، آن لائن خریداری یا گھر بیٹھے روزگار میں بھی شامل ہیں، وہ بھی اس بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔ خواتین کے لیے باؤنڈریز قائم رکھنا مزید مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ اُن سے ہر وقت ’دستیاب‘ رہنے کی توقع کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں ڈیجیٹل فٹیگ کے حوالے سے زیادہ تحقیق نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کی آن لائن آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جنوری 2025 تک انٹرنیٹ کی رسائی 45.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ موبائل کنکشنز اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں، جن کی کل تعداد 190 ملین ہے، جو کل آبادی کے 75.2 فیصد کے برابر ہے۔
سمارٹ فون کی رسائی میں ڈرامائی اضافہ دیکھا گیا ہے، جو 2014 میں 10 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 51 فیصد ہو گئی ہے، جس میں سب سے زیادہ استعمال 30-21 سال کی عمر کے افراد میں دیکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی وسیع پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں، جنوری 2025 میں 66.9 ملین صارفین ریکارڈ کیے گئے، جو کل آبادی کے 26.4 فیصد کی نمائندگی کرتی ہیں۔ خاص طور پر، پاکستان میں نوعمر افراد غیر تعلیمی مقاصد کے لیے روزانہ اوسطاً ساڑھے چھ سے سات گھنٹے سکرینوں پر گزارتے ہیں۔
تو پھر ڈیجیٹل فٹیگ سے کیسے بچا جائے؟ کیا ہمیں مکمل ڈیجیٹل دنیا چھوڑ دینی چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ ٹیکنالوجی سے انکار مسئلے کا حل نہیں، بلکہ سمجھ داری سے اس کا استعمال ہی واحد راستہ ہے۔ ہمیں ڈیجیٹل ٹولز کو غلام بنانے کے بجائے، خود اُن کا آقا بننا ہوگا۔ ڈیجیٹل حدود مقرر کریں اور کام اور ذاتی زندگی میں واضح فرق رکھیں۔ دفتر کے اوقات کے بعد فون بند یا سائلنٹ پر رکھیں۔
سکرین فری اوقات مقرر کریں تاکہ وہ وقت آپ اپنے آپ کو دیں یا پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاریں۔ ڈیجیٹل دنیا نے ہمیں نئی راہیں دی ہیں — علم، ترقی، رسائی، مواقع — مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود سے، اپنے رشتوں سے اور اپنے سکون سے کٹ جائیں۔ ہمیں یہ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کب آن لائن آنا ہے، کب آف لائن ہونا ہے، اور کب خود کو ری چارج کرنا ہے۔ اگر ہم یہ توازن نہ سیکھ سکے تو ’کنیکٹڈ ورلڈ‘ ہمیں ’ڈِس کنیکٹڈ‘ اور تھکا ہوا چھوڑ دے گی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔