کسی بھی پروگرام میں سٹیج پہ بیٹھے ہوئے معزز، عظیم اور وی آئی پی شخصیات کو دیکھتا ہوں اور سوچنے لگتا ہوں کہ ایک آدمی خود اپنی نظروں میں عظیم کیسے ہو سکتا ہے۔
یہ واقعہ کب ہوتا ہے؟ اپنے اندر کی اصل مار کے وہ کس وقت یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں واقعی وہی معزز شخصیت ہوں جو سٹیج پہ بیٹھا ہے۔
اسے الجھن کیوں نہیں ہوتی، اس میں اور مجھ میں فرق کیا ہے؟ کیا اس کے ہاتھ گرم روٹی سے نہیں جلتے؟ کیا وہ سالن میں انگلیاں ڈبو کے نہیں کھاتا؟
کیا پانی پیتے ہوئے اسے کبھی ٹھسکا نہیں لگا؟ کیا وہ کسی دوسرے طریقے سے قضائے حاجت کو جاتا ہے؟ کیا وہ گانوں پہ جھومتا نہیں ہے؟
کیا وہ دل کھول کے ہنسا نہیں کبھی، قہقہے لگا کر؟ کیا وہ اپنے کسی قریبی رشتے سے گلے نہیں ملا، جذباتی ہو کر، ایسے کہ دونوں کی پسلیاں دب گئی ہوں؟
کیا وہ بغیر دھوئے کھجوریں نہیں کھا سکتا، ڈرائے فروٹ بھی دھو کے کھاتا ہے؟ کیا اس نے کبھی گندا لطیفہ نہیں سنا؟
کیا وہ چلتےمیں کبھی ٹھوکر کھا کے نہیں گرا؟ کیا اس نے وہ سب وظائف خود ادا نہیں کیے جن کی وجہ سے دنیا میں اس کا ظہور ہوا تھا؟
کیا ہے عظمت؟ لوگ ایکسیپٹ کیسے کر لیتے ہیں کہ وہ اصل میں عظیم ہیں؟ کیا وہ ٹو پیس، شیروانی یا واسکٹ پہن کے سوتے ہیں؟
کیا انہیں خواب بھی فارمل قسم کے نظر آتے ہیں؟ کیسے آخر ایک آدمی آئینے کے سامنے خود کو عظیم لگ سکتا ہے؟
باقی سب ٹھیک ہے، دوسرے آپ کو دولت، شہرت، عہدے وغیرہ کی وجہ سے عظیم کہہ سکتے ہیں لیکن اس چیز کو ہضم کر کے آپ خود بھی عظیم ہی بن جائیں، مطلب آخر کیسے؟
دین کے علم کی بات ہے تو وہ خدا اور آپ کا معاملہ ہے، دنیا میں کوئی بڑا پن آپ کے پاس ہے تو وہ بھی ایک سرکاری سی چیز ہے، یعنی کسی دوسرے فیکٹر کی وجہ سے ہے جو باقیوں سے آپ کو الگ کرتا ہے ۔۔۔ اصل آپ کی ۔۔۔ جسم، دماغ، روح، خواب، ریفلیکسز، بیماریاں، خوف، فطرت، وہ سب تو باقی انسانوں جیسا ہی ہوتا ہے۔
آخر کیسے ایک انسان جسے مر بھی جانا ہے، وہ اپنی عظمت کا اعتراف نہ صرف سٹیج پر بیٹھ کے سنتا ہے بلکہ خجل ہوئے بغیر اسے برداشت بھی کرتا ہے اور اس پہ مِن و عَن یقین بھی کر لیتا ہے کہ ہاں، دیکھو دوسرے میری تعریف کر رہے ہیں تو میں واقعی اس قابل ہوں، کیا وہ اپنی اصل نہیں جانتا؟
پھر میں نے ایک موٹر سائیکل لے لی۔ 20 سال بعد دوبارہ چلائی ایک دو ہفتے، تب مجھے سمجھ آ گیا کہ لوگ اپنے آپ کو وی آئی پی کیسے سمجھ لیتے ہیں۔
وہ کس طرح خود کو دوسروں سے الگ سمجھتے ہیں اور سٹیج پہ ان کا رویہ ایک دم معتبر کیسے ہو جاتا ہے۔ ایسا، کہ جیسے یہ پیدا ہی اس سانچے میں ہوئے تھے۔
ہوا یوں کہ بارش ہونے والی تھی، دفتر پہنچنا تھا، بائیک نے پورا نہلا دینا تھا، میں شوق کی آواز کو ان سنا کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھا اور دفتر کا راستہ پکڑا۔
ٹھیک کوئی پانچ منٹ بعد مجھے لگا کہ حسنین جمال تو کیسا بلیسڈ آدمی ہے۔ چار دیواری ساتھ لے کے گھوم رہا ہے، بارش ہو، آندھی طوفان آئے، تو دیکھ کہ اندر اس گاڑی میں تو کیسے بے غم بیٹھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باہر چیک کر، بغیر گاڑی جو لوگ ہیں، وہ کتنی جلدی میں اپنی اپنی منزل کی طرف بھاگ رہے ہیں، تو اندر سکون سے محفوظ بیٹھا ہوا ہے۔
رم جھم گرے ساون چل رہا ہے، بالکل پریشان نہیں ہے کہ پیچھے سے کوئی ٹکر مار دے گا، بار بار پیچھے نہیں دیکھ رہا ۔۔۔ اس وقت تیرا پراعتماد اور انجوائے لائف ڈرائیونگ کا انداز تب کدھر بھاگ جاتا ہے کہ جب تو موٹر سائیکل پہ ہوتا ہے؟
تب یہ جو لفظ تھا ’پراعتماد‘ اس نے مجھے سمجھایا کہ پریولیجڈ آدمی اپنی پوزیشن کو اپنا حق تصور کرتے ہوئے اپنے خیالوں کی سیڑھیاں جب چڑھتا ہے تو واپسی کا راستہ بھلانے کے بعد اس میں وہ اعتماد پیدا ہونا شروع ہوتا ہے جس نے اسے خود اپنی نظروں میں عظیم بنانا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو ملا ہوا وی آئی پی سٹیٹس اس نے شیر مادر سمجھ کے ہضم کرنا ہوتا ہے۔
سائنسی طور پہ یہ بات مجھے شاہ جی نے سمجھائی۔
انہوں نے کہا کہ ارتقا (ایولیوشن) نے انسانوں میں قدرتی طور پہ باقاعدہ یہ رویہ ڈالا کہ وہ خود کو، اپنی ذات کو، اپنے خیالوں کو نہ صرف اہمیت دیں بلکہ کسی دوسرے سے بحث (یا لڑائی) ہو تو اپنا دفاع بھی کریں۔
انسانی دماغ کی سائنس کہتی ہے کہ وہ اپنے نظریات کے علاوہ کچھ بھی صحیح نہ ماننے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یعنی چہ؟
مطلب کہ انسان عقل کی بات سوچ تو سکتا ہے لیکن جہاں اپنی ذات پر سوال آئے گا وہاں اسے مان نہیں سکتا۔
کوئی نہ کوئی دلیل خود پیدا کر کے اس نے مطمئن ہو جانا ہے پر ٹھیک بات نہیں ماننی، گویا اہمیت جو ہے، خود اپنی ذات سے بڑھ کر اس نے کسی کو نہیں دینی۔
اور اگر کسی وجہ سے وہ مان لے یا اہمیت دے بھی دے کسی دوسرے کو، تو اسے اپنی انکساری یا فرمانبرداری سمجھ کے دوبارہ اپنی نظروں میں عظیم تر ہو جاتا ہے، اور یہی چیز ’سروائیول آف دا فٹسٹ‘ سے جا ملتی ہے۔
اب مجھے ساری گیم سمجھ آ گئی ہے۔ اب اگر سٹیج پہ بیٹھا کوئی بندہ مجھے عظیم ہونے کی ایکٹنگ کرتا نظر آیا تو میں سمجھ جاؤں گا کہ یہ موٹر بائیک یا سائیکل چلانا بھول گیا ہے بلکہ اب تو اگر کوئی مجھے حد سے زیادہ ڈاؤن ٹو ارتھ بھی لگا تب بھی میں متاثر نہیں ہوں گا، تب میں سمجھوں گا کہ یہ انکسار مارکہ عظیم آدمی ہے، جو زیادہ پیچیدہ برینڈ ہوتا ہے۔
سب گڑبڑ ہے بابا، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔