وزیراعظم کا حلقہ: نویں جماعت کے سارے طالب علم فیل

سرگودھا بورڈ کی جانب سے جاری کیے گئے نتائج کے مطابق میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے گورنمنٹ ہائی سکول ٹولہ بانگی خیل میں زیرِ تعلیم 65 جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول کھگلانوالہ کے 23 طلبہ میں سے ایک بھی طالب علم پاس نہیں ہوسکا۔

گورنمنٹ ہائی سکول کھگلانوالہ کے 23 طلبہ میں سے ایک بھی طالب علم پاس نہیں ہوسکا (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں، جو وزیراعظم عمران خان کے حلقے این اے 95 کا حصہ ہے، میں نویں جماعت کے نتائج نے سرکاری سکولوں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے، جہاں ایک سکول کے 65 طلبہ میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہوسکا۔

سرگودھا بورڈ کی جانب سے جاری کیے گئے نویں جماعت کے نتائج کے مطابق گورنمنٹ ہائی سکول ٹولہ بانگی خیل میں زیرِ تعلیم 65 جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول کھگلانوالہ کے 23 طلبہ میں سے ایک بھی طالب علم پاس نہیں ہوسکا۔

اسی طرح گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر 2 کے نویں جماعت کے 100 میں سے صرف 8 طلبہ کامیاب ہوئے، گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبر 1 کے 206 طلبہ میں سے صرف 32 نے کامیابی حاصل کی جبکہ گورنمنٹ ہائی سکول تبی سر میں 83 طلبہ میں سے تین بچے پاس ہوئے ہیں۔

سکولوں کی ناقص کارکردگی پر اہل علاقہ اور والدین نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سرکاری سکولوں کے مایوس کن نتائج کی وجوہات

میانوالی کے مقامی صحافی حبیب اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میانوالی میں وزیراعظم کا حلقہ انتخاب ہونے کی وجہ سے یہاں کئی معاملات سیاسی اثر و رسوخ کے باعث متاثر ہو رہے ہیں اور گزشتہ تین ماہ کے دوران محکمہ تعلیم کے تقریباً 12 چیف ایگزیکٹو تبدیل ہوچکے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اراکین اسمبلی سبطین خان اور امجد خان کے کہنے پر آئے روز افسران کے تبادلے معمول بن چکے ہیں یہی وجہ ہے کوئی افسر توجہ اور ذمہ داری سے حالات بہتر کرنے کو تیار نہیں۔ سکولوں کے اساتذہ بھی غیر حاضر رہتے ہیں اور سیاسی تعلقات استعمال کرکے کارروائی نہیں ہونے دیتے۔‘

حبیب اللہ نے بتایا کہ ’میانوالی میں وزیراعظم عمران خان نے نمل یونیورسٹی پر ہی توجہ مرکوز کر رکھی ہے جبکہ سرکاری سکولوں کو بہتر کرنے کا خیال نہ پنجاب حکومت کو آیا اور نہ ہی وفاقی حکومت کی دلچسپی نظر آتی ہے۔‘

ان کے خیال میں یہاں بچوں کو تعلیم دینے یا نتائج بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر مانیٹرنگ یا نظم وضبط موجود نہیں ہے۔ پسماندہ علاقہ ہونے کے باعث طلبہ کی توجہ بھی تعلیم کی طرف کم دکھائی دیتی ہے۔ یہاں غریب لوگ زیادہ ہیں جو بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے اخراجات بھی نہیں اٹھا سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے صوبائی وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس اور سی ای او محکمہ تعلیم میانوالی سید وحید الدین شاہ سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے بات کرنے سے اجتناب کیا۔

میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے ایک سرکاری سکول کے عارضی ہیڈ ماسٹر سعید خان (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کے سکول سمیت اس تحصیل کے بیشتر سکولوں کے نتائج انتہائی مایوس کن رہے جس کی بڑی وجہ پنجاب ایگزامینیشن بورڈ کے زیر انتظام لیے گئے پانچویں اور آٹھویں کلاس کے بورڈ کے امتحانات ہیں جن میں سب بچوں کو پاس کر دیا جاتا ہے۔

انہون نے بتایا کہ ’نتائج کی بنیاد پر ان طلبہ کو داخلہ دینا مجبوری ہوتا ہے لیکن ان میں سے کئی بچے اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے اور انہیں اے بی سی بھی شروع سے پڑھانی پڑتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جن سکولوں کے نتائج برے آئے وہاں زیادہ تر عارضی ہیڈ ماسٹر تعینات ہیں۔ مستقل ذمہ داری نہ ہونے پر سٹاف ان کی بات پر توجہ نہیں دیتا۔ سکولوں میں سہولیات تو موجود ہیں لیکن استاتذہ کم ہیں۔

ہیڈ ماسٹر کا مزید کہنا تھا کہ ’میانوالی میں محکمہ تعلیم کے سی ای او سمیت افسران کو آئے روز تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ حکام تک شکایات پہنچائی جاتی ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم کہاں سے مستقل ہیڈ ماسٹر لائیں، محکمہ میں کمی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل