پنجاب میں بچوں سے مشقت کرانے کے خلاف مہم

سیکریٹری لیبر اینڈ ہیومن ریسورس فیصل فرید کے مطابق حال ہی میں بچوں پر مشقت کے دوران جسمانی تشدد کے کچھ واقعات سامنے آئے جس کے بعد یہ مہم شروع کی گئی۔

پاکستانی بچے موسیقی کے آلات مرمت کرنے والی ایک دکان پر 5 فروری 2007 کو کام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پنجاب کے لیبر ڈپارٹمنٹ نے تمام رسمی و غیر رسمی شعبوں خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بچوں کی مشقت کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

سیکریٹری لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ فیصل فرید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں بچوں سے مشقت کرانے کے دوران جسمانی تشدد کے کچھ واقعات سامنے آئے جس کے بعد اس مہم کی ضرورت محسوس کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی وزارت انسانی حقوق نے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جس کے بعد بچوں کی مشقت کے خلاف مہم شروع کی جا رہی ہے۔

’ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری، چمڑے اور کم از کم 80، 90 سیکٹرز کو جی ایس پی پلس کا خاص رتبہ حاصل ہے، اس لیے یورپی یونین اور انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) مختلف فورمز پر پاکستان میں بچوں کی مشقت کروائے جانے سے متعلق خدشات کا اظہار اور ہمیں بار بار یاد دہانی کرواتے رہے ہیں۔‘

جی ایس پی پلس کیا ہے؟ 

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے مطابق جنوری 2014 سے پاکستان یورپی یونین کی ترجیحات کی عمومی سکیم پلز (جی ایس پلس) کی حیثیت سے مستفید ہو رہا ہے۔ یہ سکیم کم آمدنی والے ممالک کو ان کی برآمدات کے لیے ترجیحی ٹیرف فراہم کرتی ہے تاکہ وہاں پائیدار ترقی اور عالمی معیشت میں ان کے انضمام میں مدد مل سکے۔‘

فیصل فرید نے بتایا کہ 2017 کے ایک سروے کے مطابق صرف پنجاب میں 30 فیصد چائلڈ لیبر ہے۔ ’ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بچوں کی مشقت سے متعلق قوانین موجود ہیں، جبکہ بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں، بیرون ملک سے ڈونیشنز بھی ملتے ہیں، تکنیکی امداد بھی آ رہی ہے۔

’وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سے چائلڈ لیبر کو ختم کیا جائے۔‘

سیکریٹری لیبر فیصل فرید نے کہا کہ اس مرتبہ حکومت کا سختی کرنے کا ارادہ ہے کہ بچوں سے مشقت کروانے کے بجائے انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکولوں میں داخل کروایا جائے۔ 

فیصل فرید نے بتایا کہ بچوں سے مشقت کروانے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے گا اور متعلقہ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر سات ماہ قید اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی یو سکتا ہے۔

بچوں کی مشقت کو روکا کیسے جائے گا؟ 

اس حوالے سے سیکریٹری لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ فیصل فرید کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس تین چار طریقے ہیں، جن میں لیبر آفیسرز اپنے ایریا کو دیکھیں گے اور وہاں موجود تمام رجسٹرڈ سٹیبلشمنٹس، انڈسٹریز اور ورکشاپس پر خود جائیں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’گھروں میں ہم نہیں جائیں گے اور نہ ہم جا سکتے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ دوسرا طریقہ ہے شکایت سیل کا ہے، جہاں کوئی بھی شکایت درج کروا سکتا ہے، جو ٹیلیفون، ویب سائٹ پر یا تحریری طور پر کی جا سکتی ہے۔ ’ہم ان شکایات پر سخت سے سخت ایکشن لیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ تیسرا عوام میں آگاہی پھیلانے کا ہے، جو پہلے سے ہو رہا ہے۔

’ہم  لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں سے کسی بھی قسم کی مشقت (کام) کروانا جرم ہے۔

’جو لوگ سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں کہ اس جرم کی صورت میں ایف آئی آر ہو سکتی ہے، سزا مل سکتی ہے، وہ خود ہی ایسے عمل میں نہیں پڑتے۔‘ 

سیکریٹری لیبر کا کہنا تھا کہ اس مہم میں ورکرز یونینز کو بھی استعمال کیا جائے گا، خصوصاً گھروں میں مشقت کرنے والے بچوں کے سلسلے میں۔  

گھروں پر کام کرنے والے بچوں کے حقوق کے لیے ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی بانی بشریٰ اقبال حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’غربت کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بہت سے برے حالات کو جنم دیتی ہے اور اس سب سے برا کمزور طبقوں کی تباہی ہے۔ 

’اس میں معاشی، جسمانی، اخلاقی یعنی ہر طرح کی تباہی اور بچے سب سے زیادہ کمزور طبقہ ہے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی مشقت کی روک تھام کے لیے حکومت جو بھی قدم اٹھائے اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جانا چاہیے۔ 

’لیکن یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ گھروں میں کام کرنے والے بچے یا بچیاں بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہم ان کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے گھروں کہ اندر جانا ممکن نہیں لیکن آگاہی مہم چلا کر اس مسئلے پر شور تو مچایا جا سکتا ہے۔  

’جو بچہ کام کر رہا ہے وہ خود نہ فون کر سکتا ہے نہ ای میل۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو رپورٹ نہیں کر سکتا۔ اس میں اہل محلہ مدد کر سکتے ہیں کہ اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ والے گھر میں کوئی بچہ کام کر رہا ہے تو وہ ہمت کر کے اسے ادارے کو رپورٹ کریں۔‘

بشریٰ اقبال کا کہنا تھا کہ اکثر مشقت کرنے والے بچوں کے والدین سپورٹیو پروگرام کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ بچے ان کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ ’تو اس کا ہم کیا حل دے رہے ہیں؟ کیا اس کے لیے ہمارے پاس کوئی متبادل طریقہ ہے؟‘

فیصل فرید نے بتایا کہ انہوں نے تمام حکومت صوبے میں مقامی این جی اوز کے ساتھ مل کر رسمی و غیر رسمی شعبوں میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی مشقت کے خاتمے کے لیے آگاہی سیمینار منعقد کرے گی۔ 

’سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر واکس کا اہتمام کیا جائے گا، میڈیا پر مہم چلائی جائے گی، جس میں قومی و مقامی چینلز سمیت ریڈیو پر بھی اس مہم کو چلایا جائے گا۔‘

بچوں کی مشقت کے حوالے سے ایک لینڈ لائن نمبر بھی جاری کیا جائے گا جہاں ایسے بچوں کے حوالے سے شکایت کی جا سکے گی۔ 

ضلعی اور ڈویژنل سطح پر شکایت سیل قائم کیے جائیں گے، ساتھ ہی سینیئر افسران کی قیادت میں سپیشل سکواڈ بنایا جائے گا جو خاص طور پر لاہور، راولپنڈی اور گجرانوالہ میں کمرشل اور انڈسٹریل اسٹیبلشمنٹس میں بغیر بتائے جائیں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تمام ڈائریکٹرز لیبر، مقامی ایڈوائزرز اومبڈزمن سے رابطے میں رہیں گے اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے آگاہ رکھیں گے۔ 

ایسے تمام بچے جنہیں مشقت سے ہٹایا جائے گا ان کو سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ضلعی ایجوکیشن اتھارٹی کے سی ای اوز کو بھیج دیں گے۔ 

بچوں کی ری ہبیلی ٹیشن کے لیے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ اور چائلڈ پروٹیکشن بیوروز سے ملاقاتیں کرے گا۔ 

لیبر ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرز پولیس کے ساتھ بھی رابطے میں رہیں گے تاکہ بچوں سے مشقت کروانے والوں کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جا سکے۔

اسی طرح ضلعی پبلک پراسیکیوٹرز کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ ایسے کیسسز میں مجسٹریٹ کے سامنے کیس اچھے طریقے سے پیش کیا جا سکے۔ 

چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون  

اس حوالے سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈوکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب ریسٹریکشن آن ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2016 کے تحت ’بچہ‘ سے مراد وہ شخص ہے جو پندرہ سال کی عمر کو نہ پہنچا ہو۔ 

انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت ایسے بچوں کی ملازمت پر پابندی ہے اور جن کے پاس بچہ ہے، وہ بچے کو اسٹیبلشمنٹ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ 

’وہ کسی نوعمر کو اسٹیبلشمنٹ میں کوئی خطرناک کام کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘

سزائیں 

قانون کے مطابق کسی بچے کو کسی ادارے میں ملازمت دینے یا اسے کام کرنے کی اجازت دینے والا قید کی سزا کا مستحق ہو گا، جس کی مدت سات دن سے چھ مہینے ہو سکتی ہے، جبکہ دو سے 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ 

ایڈوکیٹ احمر کہتے ہیں کہ اگر والدین بھی بچے سے کام کرواتے ہیں تو وہ بھی ذمہ دار ہوں گے۔ 

گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے احمر کا کہنا تھا کہ ان بچوں پر ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 لاگو ہوتا ہے لیکن اس میں لیبر انسپکٹر براہ راسے اسے رپورٹ نہیں کر سکتے نہ اس میں وہ براہ راست ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں اس کا عمل بہت لمبا اور پیچیدہ ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان