اکیڈمی ایوارڈ یافتہ گلوکار اور کمپوزر اے آر رحمٰن کو بالی وڈ کی ایک فلم کے لیے ایک مقبول بنگالی گانا پیش کرنے پر بنگلہ دیش کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ہندی فلم پیپا میں استعمال ہونے والے گانے کے اپنے ورژن میں انقلابی ترانے ’کرار اوئی لوہو کوپٹ‘ (جس کا ترجمہ جیل کی آہنی سلاخیں بنتا ہے) کی ’روح‘ کو ’مسخ‘ کرنے پر موسیقار کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس احتجاج کی قیادت بنگلہ دیش کے قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کے بچوں نے کی، جنہوں نے 1922 میں یہ نظم لکھی تھی۔ جب انگریزوں مجاہد آزادی چترنجن داس کو گرفتار کرکے جیل بھیجا تو اس کے بعد نذرالاسلام نے احتجاجاً یہ گانا لکھا تھا۔
یہ نظم لوگوں سے جیل کے آہنی دروازوں کو توڑنے کا کہتی ہے۔ ایک انقلابی شاعر کے طور پر جانے جانے والے نذرالاسلام کو بھی 1923 میں برطانوی نوآبادیات نے بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اس گانے کو ان کی مشہور دھن 1949 میں ملی جب گلوکار گیرن چکربورتی نے پہلی بار اسے ریکارڈ کیا۔
عظیم شاعر کے رشتہ دار اور بنگلہ دیش اور انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں نے رحمٰن پر اصل گانے کے لہجے میں گڑبڑ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
فلم سازوں نے ردعمل کے بعد منگل کو معافی نامہ جاری کیا اور واضح کیا کہ ’ارادہ اپنے معاہدے میں طے شدہ شرائط پر عمل کرتے ہوئے گانے کی ثقافتی اہمیت کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔‘
رائے کپور فلمز نے ایک بیان میں کہا: ’ہم ناظرین کی اصل تخلیق سے جذباتی وابستگی کو سمجھتے ہیں اور چونکہ تمام آرٹ فطری طور پر موضوعی ہوتے ہیں، اگر ہماری تشریح سے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے یا غیر ارادی طور پر تکلیف ہوئی، تو ہم معذرت خواہ ہیں۔‘
فلم سازوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس گانے کے خط اور ’بول کے لائسنس معاہدے‘ کی روح پر ایمانداری سے عمل کیا جس پر کلیانی قاضی نے دستخط کیے تھے اور انربان قاضی گواہ تھے۔
شاعر کی بہو کلیانی قاضی کا اس سال انتقال ہو گیا۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اپنی موت سے پہلے، انہوں نے 2021 میں بالی ووڈ کے ایک پروڈکشن ہاؤس کو دو لاکھ روپے (1928 پاؤنڈ) کے عوض اس ’ادبی کام‘ کا لائسنس دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاہدے کے مطابق یہ حقوق پروڈکشن ہاؤس کے حوالے کیے گئے تھے تاکہ وہ اس ’ادبی کام‘ کو موسیقی کی ساخت کے ایک حصے کے طور پر استعمال، تبدیل اور دوبارہ تخلیق اور ’مذکورہ مقصد کے لیے ادبی کام میں ترمیم، اصلاح اور/ یا اس کو مختصر کریں۔‘
نیو جرسی میں مقیم کلیانی قاضی کی بیٹی انندتا قاضی نے الزام لگایا کہ انہیں اس طرح کے معاہدے کے بارے میں کبھی نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ مجھے اب معلوم ہو رہا ہے جب دنیا ایک مشہور گانے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔
’لوگ اس معاہدے میں فریق بننے اور پیسے کے بدلے گانے کے حقوق کی تجارت کرنے پر مجھ پر نفرت کے بم پھینک رہے ہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میں اس میں فریق نہیں ہوں۔ رحمٰن نے جو کچھ کیا ہے میں اس کی سخت مخالفت کرتی ہوں۔‘
نذرالاسلام کے پوتے انربان قاضی نے کہا کہ انہوں نے گانے کی دوبارہ تخلیق کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔
ڈھاکہ میں مقیم شاعر کی پوتی مستی قاضی نے کہا، ’میں بہت شرمندہ ہوں۔ رحمٰن جیسی صلاحیت کا حامل فنکار اس طرح کے مشہور گانے کو کیسے مسخ کر سکتا ہے جس نے دنیا بھر کے لوگوں اور نسلوں کو اس طرح متاثر کیا ہے؟‘
سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے کہا، ’ایک انقلابی گیت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، جس نے ’بوس برادرز، سرت اور سبھاش‘ سمیت کئی مجاہدین آزادی کو متاثر کیا، بے حرمتی ہے۔ بوس کی طرف سے سخت مذمت۔‘
ابھی تک رحمٰن نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
راجا مینن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’پیپا‘ میں ایشان کھٹر، مرنال ٹھاکر اور پرینشو پینیولی نے مرکزی کردار ادا کیا۔
© The Independent