کراچی کے لائینز ایئریا میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر خورشید بیگم، جو بیوہ اور چھ بچوں کی ماں ہیں، سندھ کے نجی سکولوں میں غریب طلبا کو مفت تعلیم کی حکومتی پالیسی سے بہت خوش ہیں۔
خورشید بیگم کا سب سے بڑا بیٹا رائیڈر کے طور ملازمت کرتا ہے جب کہ ایک چھوٹا لڑکا اور ایک لڑکی ایک نجی سکول میں زیر تعلیم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خورشید بیگم کا کہنا تھا: ’میرا بڑا بیٹا آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد مشکل سے 12 سے روپے سے 15 سو روپے کماتا ہے، جس سے گھر کا خرچہ اور مکان کا کرایہ ہی پورا ہو پاتا ہے۔ دو بچوں کو پڑھانے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
’اگر میرے دو بچوں کی تعلیم مفت ہو جائے تو میری مشکل حل ہو جائے گی اور ان کا مستقبل سنور جائے گا۔‘
سندھ حکومت نے صوبے کے نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے 10 فیصد مستحق اور میرٹ پر پورا اترنے والے طلبا کو مکمل طور پر مفت تعلیم دینے والے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے اور ایسا نہ کرنے والے اداروں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ کے نجی تعلیمی اداروں کے انتظامات کی نگرانی کرنے والے محکمہ تعلیم کے ذیلی ادارے ’ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیوٹ انسٹیٹیوشن‘ نے صوبے کے نجی تعلیمی اداروں کو والدین اور اساتذہ پر مشتمل کیمیٹیاں بنا کر اس ادارے میں مستحق اور میریٹ پر پورا اترنے والے طلبا کی نشاندہی کرنے اور انہیں مفت تعلیم دینے کے انتظامات کرنے کی ہدایات کی ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیوٹانسٹی ٹیوشنز کی ایڈیشنل ڈائریکٹر پروفیسر رفیعہ ملاح کے مطابق صوبے کے نجی تعلیمی اداروں کو اپنی کل رجسٹریشن کے 10 فیصد طلبا کو مفت تعلیم دینے سے سند میں چار لاکھ مستحق اور میرٹ پر پورا اترنے والے بچے مستفید ہوں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پروفیسر رفیعہ ملاح نے کہا: ’سندھ میں پرائیوٹ سکولز کی تعداد 11 ہزار 734 ہے، جن میں اس وقت تقریباً 40 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ’دی سندھ رائیٹ آف چلڈرن ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ‘ کے تحت نجی سکول 10 فیصد طلبہ کو مفت تعلیم دینے کے پابند ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون پر عمل درآمد کی اسورت میں کئی بچوں کو فیس کی مد میں بھی 25 سے 50 فیصد رعایت مل سکے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سال اگست سے تعلیمی سال کے آغاز سے قبل ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز نے سندھ کے نجی سکولوں کے طلبا کی تعداد کا سروے شروع کر دیا ہے۔
پروفیسر رفیعہ ملاح کے مطابق ان کے شعبے نے صوبے کے تمام سکولوں کو پابند کیا ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز سے قبل طلبہ کے چار چار والدین اور اساتذہ سمیت نو رکنی کمیٹی بنائیں، جس کا سربراہ اس سکول کا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس ہوں گی۔
’یہ کمیٹی داخلہ کے لیے آنے والے فارمز کا جائزہ لے کر مستحق اور میرٹ پر پورا اترنے والے طلبا کی نشاندہی کرکے انہیں مفت تعلیم دی جائے گی۔‘
بقول پروفیسر رفیعہ ملاح: ’اگر کسی سکول نے اس قانون پر عمل درآمد نہ کیا تو اس سکول کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی۔ قانون کے تحت تمام نجی سکولز کو ہر تین سال بعد رجسٹریشن کی تجدید کروانا لازم ہے۔ اس سال 10 فیصد مفت والے قانون پر عمل نہ کرنے والے 53 سکولز کی رجسٹریشن کو روک دیا گیا ہے۔‘
دوسری طرف آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن سندھ کے صدر زبیر احمد نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے توسط سے پرائیوٹ سکولز کے ساتھ کام کرے تو 10 کے بجائے 50 فیصد بچوں کو مفت تعلیم دی جاسکتی ہے۔
زبیر احمد کا کہنا تھا کہ حکومت اگر نجی ہسپتالوں کو 10 فیصد مریضوں کا مفت علاج کرانے کا پابند نہیں کرتی، نجی ریستورانوں کو 10 فیصد گاہکوں کو مفت کھانا کھلانے کا بابند نہیں کرتی تو نجی سکولوں کو کیوں ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔