لاپتہ لیڈیز: چھوٹے بجٹ کی بڑی فلم جس کا تقابل ’ہیرامنڈی‘ سے ہوا

سنجے لیلا بھنسالی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ ’ہیرامنڈی‘ کے عالی شان سیٹس اور بھاری بھرکم ملبوسات سے زیادہ کہانی پر توجہ دی جاتی تو’لاپتہ لیڈیز‘ کی طرح شاہکار ملتا۔

لاپتہ لیڈیز میں گمنام اداکاروں نے جاندار اداکاری کی ہے (عامر خان پروڈکشنز)

گھر کی عورتیں، ساس، نند، دیورانی، جیٹھانی سبھی بن جاتی ہیں۔ سہیلی نہیں بن پاتیں ایک دوسرے کی۔

 بالی وڈ فلم ’لاپتہ لیڈیز‘ کا یہ ایک جان دار مکالمہ ہے جو خواتین کو یہ راہ دکھاتا ہے کہ ’گھریلو مہا بھارت‘ سے نجات مل سکتی ہے اگر وہ سہیلیوں کا روپ دھار لیں۔

صرف ایک یہی مکالمہ نہیں بلکہ فلم میں کئی ایسے مکالمات ہیں جو خواتین کے باوقار اور بااختیار بنانے کا پیغام دینے کے ساتھ ان کے اندر اپنے ارمانوں اور خوابوں کو کچلنے کے بجائے انہیں حقیقت کا روپ بنانے کا عزم دیتے ہیں۔

گھر گھر کی کہانی

بہت ہی سادہ اور عام سی کہانی ہے۔ انڈیا ہی نہیں پاکستان میں بھی کئی ایسے گاؤں دیہات ہیں جہاں خواتین شوہروں کو ان کے نام سے مخاطب نہیں کرتیں۔ یہاں تک کہ ایک طویل عرصے تک دلہن کی طرح گھونگھٹ نکالے رہتی ہیں۔

اسی بات کو ذہن میں رکھ کر فلم میں دو دلہنوں کی داستان پیش کی گئی ہے۔ ان میں ایک دلہن جیا یا پشپا رانی غلط فہمی کی بنا پر اصلی دلہے کے بجائے کسی اور یعنی دیپک کے گھر آجاتی ہے جبکہ دپیک کی دلہن پھول کماری اس قدر معصوم اور بھولی ہوتی ہے کہ اسے تو گاؤں کا نام تک نہیں یاد ہوتا جس کی وجہ سے وہ بےچاری بھٹک جاتی ہے۔

بس اب یہیں سے کہانی میں دلچسپ موڑ آتے ہیں۔ پھول کماری کو شوہر کی تلاش ہوتی ہے تو ادھر جیا کی مشکوک حرکتیں کہانی کو اور زیادہ ڈرامائی موڑ دیتی ہیں۔

کہانی کے مطابق جیا کی شادی ایک خود غرض انسان سے کرائی جا رہی ہوتی ہے جبکہ جیا کو شادی سے زیادہ اعلیٰ تعلیم میں دلچسپی ہوتی ہے۔ بہرحال کس طرح وہ اپنی ذہانت کا استعمال کر کے پھول کماری اور دیپک کا ملاپ کراتی ہے، یہی فلم کا خاصہ ہے۔

’لاپتہ لیڈیز‘ کی کہانی شہرہ آفاق مصنف رابند ر ناتھ ٹیگور کے ناول ’طوفان‘ سے کسی حد تک متاثر ہے۔ پاکستان میں اسی خیال کو ذہن میں رکھ کر 1963 میں ’دلہن‘ بنی تھی، جس میں نیرسلطانہ، شمیم آرا، درپن اورحبیب شامل تھے۔

کرن راؤ رشی کیش مکھرجی کے نقش قدم پر

عامر خان کی سابقہ شریک سفر کرن راؤ کی بطور ہدایت کار ’دھوبی گھاٹ‘ کے بعد یہ دوسری تخلیق ہے جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

کرن راؤ کی اس فلم کو دیکھ کر ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی فلموں ’گول مال،‘ ’کھٹا میٹھا‘ یا ’چپکے چپکے‘ کی یاد آ گئی جو ایک معمولی سے واقعے پر ایسے ڈرامائی موڑ پیش کرتے ہیں کہ فلم بین تین گھنٹے تک سکرین سے نگاہیں ٹکائے رہتے ہیں۔

’لاپتہ لیڈیز‘ دراصل پدر شاہی سوچ کے خلاف مثبت اور ٹھوس پیغام دیتی نظر آئے گی۔ یہ تخلیق ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں گذشتہ سال ستمبر میں ’لوسٹ لیڈیز‘ کے نام سے دکھائی جا چکی ہے۔

 پھر فلم کو یکم مارچ 2024 میں سینیما گھروں میں پیش کیا گیا تو ایک نئی سٹار کاسٹ اور محدود تشہیر کی بنا پر فلم بینوں کو اس میں کوئی کشش نہیں ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

او ٹی ٹی پی پلیٹ فارم نے اسے خرید کر جب 26 اپریل کو جاری کیا تو ہر ایک کی اس میں دلچسپی بڑھ گئی۔ خاص کر ایسے میں اس فلم کا چرچا ہونے لگا جب یہ سنجے لیلا بھنسالی کی بڑے بجٹ کی کاسٹیوم ڈراما ویب سیریز ’ہیرا منڈی‘ کے مقابلے پر پیش کی گئی۔

دیکھنے والوں نے دونوں فلموں کا موازنہ کیا تو سنجے لیلا بھانسلی کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ بڑے بڑے عالی شان سیٹس اور بھاری بھرکم ملبوسات اور پھر اداکاروں کی موجودگی سے زیادہ کہانی پر توجہ دی جاتی تو’لاپتہ لیڈیز‘ کی طرح شاہکار ملتا۔

فلم پنڈتوں نے دونوں فلموں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ بھاری سرمائے سے تیار فلم کا اصل میں مقابلہ ہے تو ’لاپتہ لیڈیز‘ سے ہی۔

کسی نے لکھا کہ ’ہیرا منڈی‘ میں سب کچھ ہے لیکن کہانی نہیں۔ کرن راؤ کی اصل طاقت اس کا سکرین پلے اور مکالمات ہیں۔ فلم کسی بھی لمحے آپ کو بوجھل ہونے نہیں دے گی۔

بلکہ ایک کے بعد ایک منظر ایسے آئیں گے کہ آپ کی دلچسپی میں اضافہ ہو گا اور ذہن میں یہی سوال ابھرے گا کہ اب ہو گا کیا؟

چھوٹے بجٹ کی بڑی فلم

 دراصل ’لاپتہ لیڈیز‘ ان فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے لیے مثال ہے جو بڑی سٹار کاسٹ پر یقین رکھتے ہیں اور خطیر سرمائے سے فلمیں بنانے کے عادی ہیں۔

کرن راؤ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر فلم کا موضوع اچھا ہو، کہانی اور مکالمات جاندار ہو اور ہدایت کاری میں عرق ریزی کا اظہار ہو تو کم سرمائے سے بننے والی تخلیق بہترین کاروبار کر سکتی ہے۔

فلم کے بجٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مجموعی طور پر پانچ کروڑ روپے تک کا تھا جس نے اب تک 22 کروڑ روپے کی کمائی کر لی ہے۔

غیر معروف فنکاروں کی ’لاپتہ لیڈیز‘

فلم میں روی کشن کے علاوہ کوئی نامی گرامی شہرت یافتہ اداکارآپ کو نہیں ملے گا، بلکہ زیادہ تر ایسے فنکار ہیں جو اب تک گمنامی کے اندھیرے میں گم تھے لیکن ’لاپتہ لیڈیز‘ نے انہیں سٹار بنا دیا۔

روی کشن جو فلم میں انسپکٹر کے روپ میں ہیں، انہوں نے مکالمات سے زیادہ اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات کا ایسا استعمال کیا کہ ماننا پڑے گا کہ جیسے یہ کردار انہی کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا تھا۔

ان کے انتخاب کے بارے میں عامر خان کا کہنا تھا کہ وہ اور کرن راؤ ابتدا سے ہی اس بات پر متفق تھے کہ یہ کردار روی کشن کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔

اب مسئلہ یہ بھی تھا کہ روی کو اپنے کردارکی مناسبت سے مسلسل پان کھاتے دکھانا تھا۔ روی کشن کے مطابق ان کے لیے یہ خاصی بڑی آزمائش تھی کیونکہ پان کھانے کے بعد مکالمات بولنے کا انداز جو امیتابھ بچن نے متعارف کرایا ہےوہ ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔

اب وہ انداز روی کشن کے ذہن میں بار بار آتا لیکن انہوں نے اسے چیلنج سمجھ کر ادا کیا اور کسی طرح بھی کرن راؤ اور عامر خان کو مایوس نہیں کیا۔

ایک منظر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے روی کشن نے لگ بھگ32 پان کھائے جبکہ مجموعی طور پر پوری فلم کی شوٹنگ کے دوران 160 پان چبائے۔ کلائمکس میں ان کا کردار جس طرح ایک نیا چونکا دینے والا روپ دھارتا ہے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

ہیرو کی عامر خان سے ضد

 فلم کے مرکزی کردار نبھانے والے سپرش شری واستو کہتے ہیں کہ جب انہیں اس فلم کے لیے عامر خان کی جانب سے موبائل مسیج ملا تو وہ یہی سمجھے کہ کوئی ان سے مذاق کر رہا ہے۔

انہوں نے ویڈیو کال کی ضد کی اور جب فلم کے پروڈیوسر عامر خان ویڈیو کال پر آئے تبھی انہیں یقین آیا کہ کوئی ان سے واقعی مذاق نہیں کر رہا۔

عامر خان نے بتایا کہ وہ انہیں اس فلم میں اس لیے شامل کرنا چاہتے تھے کیونکہ انہوں نے سپرش شری واستو کی ویب سیریز ’جام تارا سب کا نمبر آئے گا‘ دیکھی تھی اور ان کے کام سے خاصے متاثر ہوئے تھے۔

خواتین کے مسائل کی عکاس

فلم’لاپتہ لیڈیز‘ دراصل سماجی مسائل کی بہترین تصویر کشی کرتی ہے جس میں خواتین کو بااختیار بنانے کا درس اور دیہی زندگی اور وہاں کے فرسوہ خیالات کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

یہ فلم دراصل خواتین کی آواز ہے۔ ان کے ان ارمانوں کو پردہ سیمیں پر دکھاتی ہے جو کئی بار رسم و رواج کے ہاتھوں قربان ہوتے ہیں۔ یہ تخلیق اس جانب بھی اشارہ کر رہی ہے کہ خواتین کو آج بھی اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فلم کے ذریعے جو مضبوط اور پراثر پیغام ملتا ہے وہ یہی ہے کہ خواتین کو ان سے خوابوں سے دور نہ رکھ جائے، گو کہ فلم میں دو ہیروئنز ہیں لیکن ’لاپتہ لیڈیز‘ میں شامل ہر خاتون اداکارہ آپ کو ہیروئن ہی لگے گی۔

جیسے منجو مائی، جن کے مکالمات میں خواتین کو بااختیار بننے کا درس ملتا ہے، جو پھول کماری کے اندر یہ احساس اجاگر کرتی ہے کہ وہ تن تنہا بھی کچھ کر سکتی ہے۔

منجو مائی کا یہ مکالمہ ’عورت اناج اگا سکتی ہے تو پکا بھی سکتی ہے۔ بچہ پیدا بھی کرسکتی ہے بڑا بھی کرسکتی ہے‘ خواتین کے اندر شعور اجاگر کرتا ہے کہ وہ کس قدر باہمت ہیں اور ساتھ ہی اپنی قابلیت اور اہلیت سے نا آشنا بھی اور اگر اس حقیقت کو جان لیں کہ خواتین سب کچھ کر سکتی ہیں تو معاشرہ بدل سکتا ہے۔

ایک منظر میں پھول کماری جس طرح معصومانہ انداز میں منجو مائی سے دریافت کرتی ہے کہ ’یہ ہم لڑکیوں کو کام کیوں نہیں کرنے دیتے؟‘ تو جواب ملتا ہے کہ ’ڈرتے ہیں۔‘

 پھر اسی طرح فلم کا یہ جملہ بھی ’کیا اب عورتوں کی پسند کا کھانا بنا کرے گا؟‘ قابل ذکر ہے یعنی خواتین کی مرضی تو پسند کے کھانوں تک میں نہیں چلتی، وہ اپنی پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر مرد حضرات کی ہر فرمائش کو پورا کرتی جا رہی ہیں۔ 

جبکہ کئی تو ایسی بھی ہیں جو شادی کے بعد اپنے شوق کی قربانی دے کر باورچی خانے تک محدود ہوجاتی ہیں۔

اس کی ایک مثال ’لاپتہ لیڈیز‘ میں دپیک کی بھابھی ہے جو بہترین مصور ہوتی ہے لیکن شادی کے بعد اپنے اس ہنر کو چھوڑ دیتی ہے لیکن یہ جیا ہی ہوتی ہے جو اس کے اس ہنر یا فن کے ذریعے بڑی الجھن کو سلجھاتی ہے۔

پھر جیا نے خود یہ باور کرایا کہ کھیتی باڑی صرف مرد ہی نہیں جانتے بلکہ خواتین ان سے زیادہ بہتر جانتی ہیں۔ خاص کر ایسے میں جب فصل کو کیڑا لگنے لگتا ہے تو جیا اپنی تحقیق کے نتیجے میں دیپک کے کھیتوں کو اس سے بچانے کے لیے بہترین طریقہ بیان کرتی ہے۔

اسی طرح خواتین کے لیے یہ پیغام بھی لاجواب ہے جو پھول کماری انتہائی خوبصورت انداز میں دیتی ہے کہ ’پرائی رسوئی (باورچی خانے) کو اپنا بنانا یہی تو چیز سکھائی ہماری اماں نے۔‘

لاپتہ جنٹلمین؟

فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سپرش شری واستو کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ کرن اور عامر خان اس فلم کا سیکوئل بنائیں جس کا نام ’لاپتہ جنٹلمین‘ رکھا جائے جس میں اب دلہنوں کی بجائے دولہوں کو گم ہونا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ