انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی عمل مکمل ہونے پر بدھ کو نیشنل کانفرنس رہنما عمر عبداللہ اور ان کی کابینہ نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔
دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے عمر عبد اللہ نے سری نگر میں ڈل جھیل کے کنارے واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں گورنر منوج سنہا سے حلف لیا۔
تقریب حلف برادری میں انڈین پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں حزب اختلاف رہنما راہل گاندھی اور اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے صدر اکلیش یادیو سمیت انڈیا اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
عمر عبداللہ، شیخ محمد عبداللہ کے پوتے اور نیشنل کانفرنس کے موجودہ صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیٹے ہیں۔
انہوں نے 1998 میں اپنی سیاسی اننگز کا آغاز محض 28 سال کی عمر میں کیا جب وہ سری نگر کے پارلیمانی حلقہ انتخاب سے 12ویں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔
اگلے سال نئے پارلیمانی انتخابات ہوئے تو عمر دوبارہ اسی سیٹ سے منتخب ہوئے اور واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کا حصہ بنے۔
انہیں وزیر مملکت برائے تجارت و صنعت کا قلم دان سونپا گیا۔ بعد ازاں اسی حکومت میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے فرائض بھی انجام دیے۔ تاہم 2002 میں اپنی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کا صدر بننے کے بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم 2006 میں پارٹی کی صدارت واپس ان کے والد کو ملی۔
2002 میں عمر عبداللہ کے پارٹی کی کمان سنبھالتے ہی پارٹی کو اس سال ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
نیشنل کانفرنس، جس نے اس سے پچھلے الیکشن یعنی 1996 میں 57 سیٹیں جیتی تھی، 2002 میں 28 سیٹیں ہی لے سکی اور عمر خود بھی گاندر بل سے اسمبلی سیٹ ہار گئے۔ ان کی پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔
2004 کے پارلیمانی انتخابات میں وہ تیسری بار لوک سبھا پہنچے۔ 2008 کے ریاستی انتخابات میں گو کہ ان کی پارٹی کی پر فارمنس 2002 والی ہی تھی یعنی 28 سیٹیں لیکن اس بار انہوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی جس کے بعد وہ 2009-2014 تک وزیر اعلیٰ رہے۔
2014 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی نے محض 15 سیٹیں لیں جو کہ جماعت کی تاریخ کی کم ترین سیٹیں تھیں۔ 2014 تا 2018 پی ڈی پی۔ بی جے پی کی اتحادی حکومت کے دوران انہوں نے ریاستی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کا کردار ادا کیا-
اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد جموں کشمیر کے دیگر علیحدگی اور مین سٹریم سیاست دانوں کی طرح انہیں بھی نظر بند کر دیا گیا۔
2024 کے پارلیمانی انتخابات میں عمر عبداللہ توقعات کے برعکس بارہ مولہ پارلیمانی سیٹ پر انجینیئر رشید سے دو لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہار گئے۔
مشرف سے ملاقات
عمر عبداللہ جموں و کشمیر کی قومی دھارے کی سیاست سے تعلق رکھنے والے واحد سیاست دان ہیں جن کی پاکستان کے کسی ہیڈ آف سٹیٹ سے مسئلہ کشمیر پر براہ راست بات چیت ہوئی ہو۔
عمر عبداللہ کی مشرف سے باضابطہ ملاقات اپنے آپ میں ایک مثال تھی کیونکہ ایسا اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔
مشرف خود بھی ایک انٹرویو میں عمر عبداللہ سے ملاقات اور ان کی خود مختاری کی بات دہرا چکے ہیں-
انڈیا، پاکستان میں خطے کے وسیع تر مفادات کی خاطر باہمی امور پر بات چیت کا آغاز نواز واجپائی کے ’معاہدہ لاہور‘ سے شروع ہوا تھا جو کارگل جنگ اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سرد مہری کا شکار ہو گیا تھا۔
2001 میں آگرہ سمٹ اور بالخصوص بعد ازاں ڈاکٹر من موہن سنگھ کے وزیر اعظم بننے کے بعد دوبار باہمی امور بشمول مسئلہ کشمیر پر سست رفتار سے ہی سہی لیکن بات چیت کو دوبارہ بحال کیا گیا۔
نیشنل کانفرنس کی خود مختاری ہے کیا؟
انڈیا کی تمام ریاستوں میں علاقائی و سیاسی جماعتوں میں نیشنل کانفرنس سب سے پرانی ہے جو ابھی تک عوام میں زندہ و تابندہ ہے۔ اس کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی ’گرینڈ اولڈ پارٹی‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کی بنیاد تقسیم ہند سے تقریباً 15 سال پہلے رکھی گئی تھی۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لیے ’خود مختاری‘ کی مانگ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کا بنیادی سیاسی نقطہ نظر ہے۔
1947 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا نئی دہلی کے ساتھ الحاق جن شرائط پر ہوا تھا اسے Instrument of Accession کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر نے صرف خارجہ امور، ڈیفنس اور کمیونیکیشن مرکز کو سونپے تھے باقی تمام معاملات پر ریاست کو پوری خود مختاری حاصل تھی جو 1953 تک قائم رہی۔
اس سال شیخ عبداللہ کی حکومت ختم کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا اور تب سے وقتاً فوقتاً انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودی مختاری کو بھی کمزور کیا جاتا رہا ہے، 1965 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم اور صدر کے عہدوں کو دیگر ریاستوں کی طرح بالترتيب وزیر اعلیٰ اور گورنر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پانچ اگست 2019 خصوصی پوزیشن پر آخری ضرب تھی۔
2000 کے جون میں نیشنل کانفرنس نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے 14 نکاتی ’خود مختاری قرار داد‘ منظور کی جس میں علاقے کی خود مختاری، وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدوں کی بحالی کا مطالبہ تھا۔ اس وقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ وزیر اعلیٰ تھے۔
جولائی میں واجپائی کی مرکزی کابینہ نے اس قرارداد کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ آزادی کے بعد دیگر ریاستوں کے بھی انڈیا میں ضم ہوتے ہوئے اختیارات کم کیے گئے تھے لہٰذا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی 1953 والی مانگ ناقابل عمل ہے۔
یاد رہے اس وقت عمر عبداللہ مرکز میں حکومت کا حصہ تو تھے لیکن کابینہ کے رکن نہیں تھے۔ ریاستی اسمبلی سے اس قراداد کو عمر عبداللہ کی سیاست میں انقلابی انٹری کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
نیشنل کانفرنس کا یہ موقف ہے کہ انڈیا کشمیر کو ’اٹوٹ انگ‘ کہتا ہے جبکہ پاکستان ’شہ رگ‘ اور دونوں ایٹمی ہمسائے ہیں۔ اس لیے اس تناؤ کو کم کرنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ دونوں ممالک اپنے زیر انتظام کشمیر میں خود مختاری دیں، ایل او سی پر تجارت کو بڑھائیں اور دونوں اطراف کے لوگوں کا آپس میں ملاپ ہو۔
حالیہ انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی زبر دست پرفارمنس
نیشنل کانفرنس 42 نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس کے علاوہ آزاد امیدواروں جیتنے والوں میں زیادہ تر ایسے ہیں جو نیشنل کانفرنس ہی کے تھے لیکن اتحاد میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد لڑے-
آزاد ملا کر ان کی تعداد 48 ہے اور 1996 کے بعد پہلی دفعہ ہوا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی پارٹی تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
اتحاد کی دوسری جماعتوں میں انڈین نیشنل کانگریس کی چھ سیٹیں ہیں اور ایک سیٹ کمیونسٹ پارٹی نے جیتی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے بھی اپنے واحد ایم ایل اے کی سپورٹ عمر عبداللہ کو دی ہے۔ اس طرح یہ تعداد 56 ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتحاد میں نیشنل کانفرنس کل 52 سیٹوں پر لڑ رہی تھی اور کانگریس 32 پر جبکہ ایک ایک سیٹ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) اور جموں و کشمیر پنتھرس پارٹی کو ملی تھیں اور پانچ نشستوں پر کھلا مقابلہ تھا۔
پچھلے چھ سالوں سے پوری ریاستی مشینری اور بیوروکریسی بی جے پی کے کنٹرول میں ہے۔ اور ریاست میں اپوزیشن جماعتوں کے لیے لیول پلئینگ فیلڈ وہ نہیں تھی جو بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل تھی۔ ان سب رکاوٹوں کے باوجود نیشنل کانفرنس نے زبردست پر فارمنس دی ہے اور اس کی جیت کی شرح 80 فیصد سے بھی زائد ہے۔
جیت میں پارٹی منشور کا کردار
نوشہرہ سے نیشنل کانفرنس کے سریندر چوہدری نے بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینا کے مقابلے میں الیکشن جیتا ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی واضح اکثریت بی جے پی کے آرٹیکل 370 اور ریاستی درجہ چھیننے کے فیصلے کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے۔
بی جے پی کے ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے برعکس انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی عوام نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی پہچان واپس دلانے کے وعدے کو ووٹ دیا ہے۔
ان انتخابات میں لوگوں نے نیشنل کانفرنس کے منشور کو سراہتے ہوئے اسے واضح اکثریت دی ہے۔ نیشنل کانفرنس وہ جماعت ہے جس نے انتخابات سے قبل پہل کرتے ہوئے ایک واضح سیاسی منشور دیا تھا جس میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے عزت و وقار اور خصوصی درجہ کی بحالی کو واپس لینے کے لیے واضح موقف لیا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی دیگر جماعتوں نے بھی اپنے منشور جاری کیے۔
این سی کے 44 صفحاتی منشور میں پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور ریاستی درجے کی بحالی کا وعدہ سر فہرست ہے اور اس میں ہاؤس کے وجود میں آنے کے بعد، 2019 کے بعد کیے گئے فیصلوں کے خلاف قرارداد لانا بھی شامل ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جسے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ خریدا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی دوسری علاقائی سیاسی جماعت پی ڈی پی کے انتخابی منشور میں بھی اگرچہ خصوصی پوزیشن کی بات ہے تاہم اس میں نیشنل کانفرنس کے برعکس اتنی وضاحت نہیں ہے۔ اس بار پی ڈی پی محض تین سیٹوں پر سمٹ کے رہ گئی ہے۔
اس کی بڑی وجہ 2014 میں بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت بنانا تھا، بعد میں اس نے پی ڈی پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اب عوام نے اپنا غصہ نکالا ہے۔
ریاستی درجے کی بات کانگریس نے بھی کی تھی لیکن خصوصی پوزیشن کا تذکرہ اس کے منشور سے سرے سے غائب تھا۔ کانگریس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بل کی مخالفت کی تھی۔ یاد رہے کہ ریاستی درجے کی بات بی جے پی بھی کرتی ہے۔
عمر عبداللہ کو آنے والے دنوں میں ممکنہ چیلنجز
ڈوڈہ میں اپنی جماعت کے واحد ایم ایل اے کی جیت کی خوشی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے کنوینیر اروند کیجریوال نے عمر عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر (عمر عبداللہ) کو آدھی ریاست چلانے میں دشواریاں پیش آئیں تو وہ بلا جھجک مجھ (کیجریوال) سے رابطہ کریں کیونکہ مجھے تجربہ ہے کہ آدھی ریاست کو کیسے چلایا جاتا ہے۔‘
عمر عبداللہ کے سامنے پہلا چیلنج معاشی ہے اور آنے والے بجٹ میں مالیاتی خسارہ کم کرنے کے اقدام بھی کرنے ہوں گے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اس وقت ایک یونین ٹیریٹری ہے اور ایک ریاست کو جو کچھ فنانشل خود مختاریاں حاصل ہوتی ہیں جن سے ریاستیں کچھ ریونیو پیدا کرتی ہیں وہ اس وقت میسر نہیں ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بجٹ کا اہم حصہ مرکز سے گرانٹس پر منحصر ہے ایسے میں ترقیاتی منصوبوں پر مرکزی اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں کی ترجیحات میں فرق ہو سکتا ہے۔
بہرحال یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ دونوں کے درمیان کام کے تعلقات کیسے رہتے ہیں۔
چونکہ یونین ٹیریٹری میں بیوروکریسی پر مرکز کا زیادہ کنٹرول ہوتا ہے، اس ضمن میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ وغیرہ کو لے کر ہم دہلی میں کیجریوال اور مرکزی حکومت کی چپقلش سنتے رہتے ہیں۔
اگر ریاست کا درجہ جلدی بحال ہوتا ہے تو انتظامی امور پر اس نئی حکومت کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
مودی حکومت نے گذشتہ بجٹ سیشن میں آناً فاناً جس طرح سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات بڑھائے ہیں اس سے اس کی نیت صاف نظر نہیں آتی۔
بے روزگاری بھی ایک اہم ایشو ہے، Annual periodic labour force survey 2022-23 کے مطابق بےروزگاری کی قومی شرح 3.2 ہے جبکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں یہ شرح 4.4 فیصد ہے۔
ادھر عمر عبداللہ کو ووٹ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے وعدے پر ملا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ کافی دلچسپ ہو گا کہ وہ سیاسی لڑائی کیسے اور کس نوعیت کی لڑتے ہیں اور انتظامی امور کیسے چلاتے ہیں۔