انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیقات کے مطابق رواں ہفتے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران جان سے جانے والے افراد کی تعداد 10 ہے جبکہ گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے تقریباً 110 افراد ہسپتالوں میں لائے گئے، تاہم پی ٹی آئی کے مطابق اس احتجاج میں ان کے ’12 کارکن قتل ہوئے۔‘
تحریک انصاف کی 24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ کی ’فائنل کال‘ کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا۔ یہ قافلہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا، تاہم بعدازاں سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کرکے علاقے کو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خالی کروا لیا۔
اس واقعے کے بعد ابتدا میں جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے چند رہنما سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں 278 افراد کی اموات اور کچھ 40 افراد کے جان سے جانے کا دعویٰ کرتے دکھائی دیے تو وہیں دوسری جانب حکومت نے موقف اختیار کیا کہ احتجاجی مظاہرین پر گولیاں نہیں چلائی گئیں اور سکیورٹی فورسز کو آتشیں اسلحہ دیا ہی نہیں گیا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ ’اگر ایسا ہے تو اس کے ’ثبوت سامنے لائے جائیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے جمعے کو پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران 12 کارکنان قتل کیے گئے اور کئی زخمی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا بیان ہے کہ ایک گولی بھی نہیں چلی لیکن ثبوت اور ویڈیو موجود ہے کہ کتنی گولیاں ماری گئیں، 12 لوگ موقع پر ہی شہید ہوئے، جن میں سے سات کا تعلق خیبرپختونخوا، دو کا تعلق بلوچستان سے ہے، پنجاب، آزادکشمیر اور اسلام آباد کا ایک ایک کارکن بھی 26 نومبر کو جان سے گیا۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اموات کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار بیان کیے ہیں۔
اس صورت حال میں انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے؟ اور 26 نومبر کے روز اور 26 اور 27 نومبر کی درمیانی شب ہونے والے ’آپریشن‘ میں کتنے افراد جان سے گئے اور کتنے زخمی ہوئے؟
پولی کلینک ہسپتال کے اعلیٰ عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس دن سے متعلق جو ایک صفحے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ درست ہیں۔‘
یہ عہدے دار سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی اس ایک صفحے پر مبنی مبینہ فہرست کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں پولی کلینک میں لائے گئے ان افراد کے نام اور پتے درج ہیں، جو احتجاج کے روز بظاہر گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’لیکن یہ تفصیلات نامکمل ہیں۔ تفصیلات ایک سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں۔ پولی کلینک ہسپتال میں لائے جانے والے تین مظاہرین چل بسے جبکہ یہاں گولیوں سے زخمی کل 50 افراد لائے گئے تھے۔ پمز ہسپتال میں تقریباً 60 ایسے افراد لائے گئے، جنہیں گولیاں لگی تھیں، اطلاعات کے مطابق ان میں سے سات افراد جان سے چلے گئے۔‘
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بڑے پمز ہسپتال کے ایک سینیئر عہدے دار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ’پمز میں چار میتیں سرد خانے میں پڑی ہوئی خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ باہر کھڑے افراد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ ان کے چار افراد جان سے چلے گئے ہیں، ان کا پوسٹ مارٹم ہونا ہے، اس لیے ہم یہاں کھڑے ہیں۔‘ اس عہدے دار نے زیادہ لاشیں موجود ہونے کا شک کا اظہار بھی کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان تفصیلات کے حصول کے لیے دونوں ہسپتالوں کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ فراہم کرنے کا کہا تو ہسپتال کے عملے نے انکار کر دیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد سے ’سکیورٹی اداروں کی جانب سے ریکارڈ مٹانے کی کوشش، ہسپتال انتظامیہ پر دباؤ ڈالے جانے، احتجاج کے دوران 10 افراد کے مارے جانے اور 100 سے زائد افراد کے گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہونے‘ کے معاملے پر موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاہم ان کی جانب سے اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کہ ’اس وقت لاشوں کے حوالے سے کوئی شواہد یا تفصیلات موجود نہیں ہیں، بلکہ ایک جھوٹا بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ’جھوٹی تصاویر اور ویڈیوز‘ کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی تصدیق کے لیے ایک سیل تشکیل دے دیا گیا ہے، جو ان تصاویر اور ویڈیوز کی تفتیش کرے گا۔
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ لاشوں کے حوالے سے جھوٹے بیانیے اور غلط اعدادوشمار سے معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی ملک کی معیشت پٹڑی سے اترے گی۔
دو روز قبل 27 نومبر 2024 کو جاری کیے گئے ایک مختصر بیان میں پولی کلینک انتظامیہ نے ’ہسپتال میں کسی فرد کی گولی سے زحمی ہونے، گولی لگنے یا دستی بم سے مرنے والے کی لاش کی موجودگی کی تردید کی تھی۔‘ یہ تردید سوشل میڈیا پر چلنے والے اطلاعات کے جواب میں جاری کی گئی تھی۔
ہسپتال انتظامیہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ میڈیا پر گردش کرنے والی اس ہسپتال سے متعلق ایسی غیر مصدقہ خبروں کو جعلی سمجھا جائے۔‘
پولی کلینک کے عہدے دار نے اس سوال پر کہ ’کیا ہسپتال میں اس دن لائے جانے والے تین افراد کی موت گولی لگنے سے ہوئی؟‘ کے جواب میں کہا: ’بظاہر گولیاں لگنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ دیگر تفصیلات پوسٹ مارٹم کے بعد ہی بتائی جا سکتی ہیں۔‘
’ریکارڈ کے مطابق 100 سے زائد افراد کو گولیاں لگیں‘
پولی کلینک ہسپتال میں گولی لگنے سے زخمی یا جان سے جانے والے سکیورٹی اہلکار بھی لائے گئے؟ اس سوال کے جواب میں عہدے دار نے بتایا: ’عام طور پر زخمی ہونے والے پانچ پولیس اہلکار لائے گئے تھے۔‘
26 نومبر کو رات گئے حکمران جماعت کے رہنما و وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ احتجاجی مظاہرین کی جانب سے بھی گولیاں چلائی گئیں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ ’کیا ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہونے والے افراد ہسپتال نہیں لائے گئے؟‘ پولی کلینک کے عہدے دار نے بتایا: ’ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والا کوئی شخص پولی کلینک ہسپتال نہیں لایا گیا اور دونوں ہسپتالوں یعنی پمز اور پولی کلینک کے ریکارڈ کے مطابق سو سے زائد افراد کو گولیاں لگیں۔‘
کیا یہ افراد ربڑ کی گولیوں یا گن شاٹس سے زخمی ہوئے؟‘ اس سوال پر عہدے دار نے بتایا کہ ’ان کو گولیاں ہی کہا جاتا ہے، ربڑ بلٹس کو ہسپتال کی زبان میں ربر بلٹس انجری ہی کہا جاتا ہے، گولیاں نہیں۔‘
ہسپتال کے عہدے دار نے ان تفصیلات کے پیش نظر وفاقی وزارت صحت پر پڑنے والے ’دباؤ‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’یہ تفصیلات روکنی نہیں چاہییں لیکن ہمارے اوپر دباؤ ہے۔‘
عہدے دار کے مطابق: ’جب سکیورٹی اداروں کے اہلکار آئے تو انہوں نے محسوس کر لیا کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔ ’کوشش کی گئی ہے کہ ریکارڈ کو سرے سے مٹا دیا جائے تاکہ ہسپتال میں آنے والے افراد کی تفصیلات ہی نہ رہیں۔ چونکہ یہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہے لہٰذا کئی تفصیلات ریکارڈ کا حصہ ہیں، جنہیں اگر دیکھا جائے تو تفصیلات سامنے آ سکتی ہیں۔‘
ان کی اس بات کی سرکاری حکام سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
’اس رات ہسپتال میں کرفیو تھا‘
پولی کلینک کے عہدے دار نے احتجاج کی رات ہسپتال کی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ احتجاج کی رات اتنا رش تھا کہ ہم طریقہ کار کو فالو ہی نہیں کر سکے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارے پاس دو روز میں پانچ زخمی پولیس اہلکار آئے تھے، کوئی رینجرز کا اہلکار نہیں آیا۔ اس رات ہسپتال میں بالکل کرفیو لگا دیا گیا تھا اور کہا گیا کہ کوئی معلومات باہر نہیں جائیں گی۔‘
یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر 10 افراد کی اموات ہوئیں تو کیا ہسپتالوں میں ان کے لواحقین نہیں آئے؟ یا یہ لاشیں کہاں گئیں؟ انہیں ہسپتال سے کون لے کر گیا؟ یہی سوالات ہم نے پولی کلینک ہسپتال کے عہدے دار سے بھی کیے۔
جس پر انہوں نے بتایا کہ ’زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتال میں پولیس لائی تھی، جنہیں بعد ازاں ان ہی کے حوالے کر دیا گیا۔ اب پولیس اگر ان کے ساتھ تفصیلات شیئر کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ ہمارے پاس کوئی بھی فیملی ممبر اپنے گھر کے فرد کو ہسپتال نہیں لایا، تمام افراد کو پولیس ہی ہسپتال لائی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی فہرست میں درج ناموں کے افراد کو تلاش کرنے کی بھی کوشش کی۔ ان میں سے ایک اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس کے رہائشی محمد فرخ بھی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے فہرست میں دیے گئے پتہ پر جا کر مکان کے رہائشی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں فرخ نامی کوئی شخص نہیں رہتا۔ گلی میں واقع دیگر گھروں سے بھی رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہاں اس نام سے کوئی شخص رہائش پذیر نہیں ہے۔
یہ نہیں معلوم کہ فہرست میں پتے غلط کیوں ڈالے گیے۔ یہ جان بوجھ کر کیا گیا یا جلدی میں ایسا ہوا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں کیے گئے احتجاج کے دوران مبینہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کارکن طارق خان کو دو روز قبل آبائی گاؤں میں دفنا دیا گیا۔
طارق خان کی میت وصول کرنے کے لیے ان کے اہل خانہ اور پی ٹی آئی شانگلہ کے تحصیل چیئرمین عبدالمولیٰ خان اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچے تھے۔
عبدالمولیٰ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ طارق خان کا گھر اسلام آباد کے علاقے 26 نمبر چونگی پر ہے اور اس روز وہ احتجاج میں شریک تھے۔
انہوں نے بتایا: ’احتجاج کے روز وہ گاڑی تلے کچلے جانے سے چل بسے تھے، ان کی میت لینے کے لیے ہم پمز ہسپتال پہنچے، تاہم وہاں پہنچنے پر ہمیں میت دینے سے انکار کیا گیا اور بتایا گیا کہ طارق خان کی فیملی کو ایک حلف نامہ جمع کروانا ہوگا۔‘
عبدالمولیٰ خان کے مطابق: ’حلف نامے پر لکھا گیا تھا کہ طارق خان کی موت حادثے سے ہوئی ہے اور ان کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’طارق خان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا اور میت لینے کے لیے مجبوراً حلف نامے پر دستخط کرنے پڑے، تب جا کر ہمیں لاش دی گئی۔‘
ہسپتال کی طرف کسی قسم کے دستاویزات اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں دیا گیا۔‘