محمد ہارون کی طرح روزانہ ہزاروں مریض آئی بی پی سے مستفید ہونے کی غرض سے پشاور کے تین بڑے ہسپتالوں میں جاتے ہیں، جہاں انہیں سہولت کی بجائے ڈاکٹروں کے نجی کلینکس جتنا ہی خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔
ہسپتال
خاتون کا علاج کرنے والے سرجن نے اس کیس کو ’انتہائی غیر معمولی‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’میں نے اپنے 22 سالہ نیورو سرجیکل کیریئر میں ایسا کوئی کیس نہیں دیکھا۔‘