ایٹمی جنگ، کیا سب کچھ راکھ ہونے کو ہے؟

امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے 2022 میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میں پانچ ارب اور اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دو ارب انسان مر جائیں گے۔

انڈین حکومت کی طرف سے 17 مئی 1998 کو جاری کی گئی اس تصویر میں شکتی 3 نیوکلیئر سائٹ کو دکھایا گیا ہے (تصویر اے ایف پی)

امریکی صدر براک اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ملنے والی ایک بریفنگ نے تین ماہ تک ان کی نیندیں اڑائے رکھیں جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے کچھ سمارٹ بم القاعدہ کے ہاتھ لگ کر امریکہ پہنچ گئے ہیں اور کسی بھی وقت نیویارک، واشنگٹن، شکاگو اور لاس اینجلس میں شدید تباہی پھیل سکتی ہے۔

اوباما نے لکھا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مکمل محفوظ ہے اور یہ صرف افواہیں تھیں جن کی زد میں امریکہ کے خفیہ ادارے بھی آ گئے تھے۔

اسی دور میں اینڈریو ایف کریپنیوچ کی کتاب ’سات مہلک منظرنامے‘ (Seven Deadly Scenarios) چھپی تھی جس میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ایسے ہی فرضی قصے گھڑ کر ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

کتاب کے مصنف کا شمار امریکہ کے نمایاں دفاعی مبصرین میں ہوتا ہے جو امریکی تھنک ٹینک CSBA کے صدر ہیں اور جارج میسن یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔

اس کتاب کا پہلا باب پاکستان کے بارے میں ہے۔ کتاب میں کہیں بتایا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور کہیں کہا گیا کہ معاشی عدم استحکام، سیاسی انتشار اور انتہا پسندی نے مل کر ایک ایسا بحران پیدا کر دیا ہے جس کا نتیجہ انڈیا کے ساتھ ایٹمی جنگ کی صورت میں نکل آیا ہے۔

اس کتاب پر کافی سوالات اٹھائے گئے کیونکہ مصنف نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کسی بھی ہنگامی صورت حال میں ان اثاثوں کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔

ایٹمی ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کے بارے میں باتیں پرانی ہو چکی ہیں تاہم اب یہ بحث ہوتی ہے کہ پاکستان انڈیا کے درمیان کسی بھی تنازعے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

حالیہ کشیدگی میں یہ بحث پھر شدو مد کے ساتھ شروع ہو گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس بار ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

ایٹمی جنگ کے اثرات کیا ہوں گے؟

امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے 2022 میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میں پانچ ارب اور اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دو ارب انسان مر جائیں گے۔

اگر پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے خلاف 100 سے 250 کلو ٹن کے ایٹمی ہتھیار جو ان دونوں ممالک کے پاس موجود ہیں، استعمال کرتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں 12 کروڑ 70 لاکھ لوگ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں لگنے والی آگ اور تابکاری سے فوری طور پر مر جائیں گے۔

آسمان پر ایٹمی تابکاری کے جو بادل چھائیں گے اس میں تین کروڑ 70 لاکھ ٹن زہریلا مواد موجود ہو گا جس سے پوری دنیا کا ماحول تباہ ہو جائے گا اور دنیا بھر کا درجہ حرارت پانچ درجہ سیلسیئس بڑھ جائے گا۔

اتنا درجہ حرارت گذشتہ برفانی دور کے دوران بڑھا تھا۔ دنیا میں خوراک کی پیداوار کا نظام مفلوج ہو جائے گا۔ اس کی پیداواری صلاحیت اجناس یا مچھلیوں کی صورت میں 42 فیصد تک گر جائے گی۔ دنیا بھر میں قحط پھیل جائے گا جس سے دو ارب لوگ مر جائیں گے۔ ایٹمی تابکاری کے بادلوں میں دھماکے سے جلنے والی لکڑی کی راکھ، تیل، تباہ ہونے والی عمارتوں کی دھول اور آگ کی راکھ اس قدر زیادہ ہو گی کہ یہ سورج کی روشنی کو روک دے گی جس سے دنیا میں ایٹمی سردی شروع ہو جائے گی جس سے زرعی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔

ایٹمی تنازع اب سنجیدہ حلقوں میں بھی زیرِ بحث ہے

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ دونوں نے پاک انڈیا ممکنہ جنگ کے بارے میں خبر دار کر دیا ہے۔ تاہم کیا یہ تنازع روایتی جنگ سے ہٹ کر ایٹمی جنگ میں بھی بدل سکتا ہے؟

شاید اسی ایک امکان کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک ایک کھلی جنگ سے بچے ہوئے ہیں۔ 1948 کی پہلی پاک انڈیا جنگ کشمیر کی وجہ سے ہوئی تھی اسی لیے کشمیر تک محدود رہی تھی۔ 1965 اور پھر 1971 کی دونوں جنگیں مکمل جنگیں تھیں لیکن تب تک دونوں ملک ایٹمی طاقت نہیں تھے۔

1999 کا کارگل تنازع بھی ایک مخصوص علاقے سے بڑھ نہیں سکا تھا اگرچہ دونوں طرف کی فوجوں کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ موجودہ تنازع اس حوالے سے مختلف ہے کہ اس میں ایٹمی جنگ کو خارج از امکان قرا ر نہیں دیا جا رہا۔ دونوں ممالک نے خاصی بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار ذخیرہ کر رکھے ہیں۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس 172 اور پاکستان کے پاس 170 نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ کئی خطروں کی نشاندہی کرتا ہے۔

’دی وائر‘ نامی ویب انڈین ویب سائٹ پر پاکستان کے معروف صحافی نجم سیٹھی اور معروف انڈین صحافی کرن تھاپر کے درمیان ایک مذاکرہ ہوا جس میں کرن تھاپر نے سوال کیا، ’انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کردیا ہے کیا یہ عمل ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے اور پاکستان ایٹمی جنگ کی جو دھمکیاں دے رہا ہے کیا یہ حقیقی ہیں یا کسی کالج بوائے کی بڑھکیں ہیں؟‘

اس کے جواب میں نجم سیٹھی نے جواب دیا کہ اس بار خطرہ زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کا ایٹمی ڈاکٹرن انڈیا کے خلاف ہی ڈیزائن کیا گیا ہے اگر ہمارے وجود کو خطرہ ہوا تو پھر ہم اکیلے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ پوری دنیا کو لے کر جائیں گے۔‘

حملے میں پہل کون کرے گا؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1988 میں ایک ایٹمی معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ 1991 میں اس معاہدے میں رد و بدل کرتے ہوئے دونوں ممالک پر ایک دوسرے سے اپنی ایٹمی تنصیبات کے مقامات بھی ظاہر کیے گئے۔

اس کے بعد سے دونوں ممالک تواتر کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے ایٹمی مقامات کی معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں۔ انڈیا کا ایٹمی ڈاکٹرن واضح طور پر پہل نہ کرنے پر استوار ہے تاہم اگر اس پر کیمیکل یا بائیولاجیکل ہتھیاروں سے حملہ ہوتا ہے تو پھر وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے بعد پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اس کے بعد باقی دو طرفہ معاہدوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی جن میں ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنا رکھی جس کی وجہ سے اس کے پاس کھلا آپشن ہے حتیٰ کہ اگر انڈیا اس کی سرحدوں کے اندر آ کر اس کی فوجوں پر یا اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے، تو بھی وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے بارے میں مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس کے پاس محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے والے ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یعنی اس کی سرحد کے اندر انڈین افواج ہزاروں کی تعداد میں گھستی ہیں تو اس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو لمحوں میں مخالف فوجوں کا ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔

یہی وہ خطرناک منظر نامہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات موجود ہیں۔ 2022 میں انڈیا نے غلطی سے براہموس میزائل پاکستان کی جانب فائر کر دیا تھا ایسا کوئی بھی اتفاق ایٹمی میزائلوں کو حرکت دے سکتا ہے۔

امن کی کنجی کس کے پاس ہے؟

اگر ہم ماضی قریب 2019 کے تنازعے کو ذہنوں میں رکھیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بالا کوٹ حملے کے اگلے دن پاکستان ایئر فورس کی جوابی کارروائی میں ایک انڈین طیارے کو مار گرانے کے بعد دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور قریب تھا کا کسی بھی وقت طبلِ جنگ بج جائے، تاہم اس وقت یہ جنگ امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔

تب بھی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے اور آج بھی وہی صدر ہیں۔ لیکن اس بار انہوں نے ایک ایسا بیان دیا ہے جو بہت مبہم ہے یعنی کہ دونوں ملک خود ہی کوئی راستہ نکال لیں گے۔

غزہ پر اسرئیل کے وحشت ناک حملوں اور یوکرائن پر روسی حملوں کے بعد امن کی قوتیں ویسے بھی عدم اعتمادی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دنیا دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی پر اتنی متوجہ نہیں ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے اسرائیل نے غزہ پر جس خطرناک رویے کا مظاہرہ کیا ہے انڈیا بھی اسے بطور مثال بنا کر کشمیر میں دہرانا چاہتا ہے۔ اس نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع بھی کر رکھا ہے ہزاروں کشمیری گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

اگر دونوں ملکوں کے درمیان مکمل جنگ نہیں بھی ہوتی تب بھی کشمیریوں کے لیے بہت برے دن شروع ہو چکے ہیں کیونکہ انڈیا کا خیال ہے کہ دنیا جیسے غزہ میں تماشائی بنی بیٹھی ہے ایسے ہی کشمیر میں بن جائے گی۔

لیکن یہ پاکستان کے لیے مشکل صورت حال ہو گی کہ وہ کیا کشمیریوں کو اکیلا چھوڑ سکتا ہے؟

پاکستان جب بھی اس جنگ میں کودے گا ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ایسے لگتا ہے خطے کی امن کی کنجی ڈل جھیل میں گر چکی ہے جسے تلاش کرنے میں دونوں ممالک اور دنیا ناکام ہو چکی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ