کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محسن مہدوی کو بدھ کو اس وقت امریکی امیگریشن حراست سے رہا کر دیا گیا، جب ایک جج نے فیصلہ دیا کہ انہیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے تاکہ وہ فلسطین کے حق میں مظاہروں میں شرکت پر ٹرمپ انتظامیہ کی ملک بدر کرنے کی اپنے خلاف کوششوں کو چیلنج کر سکیں۔
مغربی کنارے میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے مہدوی کو اس ماہ کے آغاز میں اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی امریکی شہریت کی درخواست کے انٹرویو کے لیے پہنچے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک جج نے فوری طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ انہیں امریکہ سے ملک بدر نہ کیا جائے اور نہ ہی ریاست ورمونٹ سے باہر لے جایا جائے۔
دو ہفتے زیرِ حراست رہنے کے بعد، مہدوی امریکی ڈسٹرکٹ جج جیفری کرافورڈ کے حکم پر برلنگٹن، ورمونٹ کی وفاقی عدالت سے باہر آئے۔
اپنے فیصلے میں، جج کرافورڈ نے کہا کہ مہدوی عوام کے لیے خطرہ نہیں اور نہ ہی ان کے فرار ہونے کا خطرہ ہے۔ جج نے موجودہ سیاسی ماحول کا موازنہ گزشتہ صدی کے ریڈ سکیئر اور مک کارتھی ازم کے ادوار سے کیا، جب ہزاروں افراد کو ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ملک بدر کیا گیا تھا۔
مہدوی کی رہائی ٹرمپ انتظامیہ کے اُن اقدامات کے لیے ایک دھچکا تھی جن کے تحت فلسطین کے حامی غیر ملکی یونیورسٹی طلبہ کو ملک بدر کیا جا رہا ہے، حالانکہ دیگر افراد اب بھی قید میں ہیں۔
عدالت سے باہر آتے ہوئے مہدوی نے کہا: ’میں صدر ٹرمپ اور ان کی کابینہ سے صاف اور بلند آواز میں کہہ رہا ہوں، میں آپ سے نہیں ڈرتا۔‘
مہدوی نے جج کرافورڈ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا: ’یہ امید کی ایک کرن ہے، امریکہ کے عدالتی نظام پر یقین اور امید۔‘
ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکاروں نے کہا ہے کہ طالب علم ویزا اور گرین کارڈ رکھنے والوں کو فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ کے تنازعے میں اسرائیل کے طرز عمل پر تنقید کے سبب ملک بدر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ اقدامات امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ ہیں۔
محکمہ داخلی سلامتی (ڈی ایچ ایس) کی ترجمان ٹریشا میک لافلِن نے کہا کہ مہدوی کا امریکہ میں گرین کارڈ پر تعلیم حاصل کرنے کا استحقاق چھین لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’جب آپ تشدد کی وکالت کرتے ہیں، دہشت گردوں کی حمایت اور ان کی تعریف کرتے ہیں جو امریکیوں کو قتل کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اور یہودیوں کو ہراساں کرتے ہیں، تو یہ استحقاق چھینا جانا چاہیے، اور آپ کو اس ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی جج، یہ ہو یا کوئی اور، ہمیں یہ کرنے سے نہیں روک سکتا۔‘
ٹرمپ کے ناقدین نے ان اقدامات کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دیا ہے۔
ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگریس کے وفد، سینیٹر برنی سینڈرز، سینیٹر پیٹر ویلچ اور نمائندہ بیکا بالنٹ نے ایک بیان میں کہا: ’مہدوی امریکہ میں قانونی طور پر موجود ہیں اور ان کا عمل قانون کے مطابق ہے۔
’ٹرمپ انتظامیہ کے اس کیس میں اقداماتاور ایسے دیگر بہت سے کیسز میں، جن میں لوگوں کو غلط طریقے سے قید، ملک بدر یا لاپتہ کیا گیا شرمناک اور غیر اخلاقی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح کے حالات سے دوچار دیگر مظاہرین میں کولمبیا یونیورسٹی کا طالب علم محمود خلیل اور ٹفٹس یونیورسٹی کی طالبہ رومیسہ اوزتُرک شامل ہیں۔
خلیل اور اوزتُرک دونوں ابھی بھی حراست میں ہیں اور ان پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا۔
مہدوی گذشتہ 10 برسوں سے ورمونٹ میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے وکلا کے مطابق وہ مئی میں کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کریں گے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی ایک ترجمان نے مہدوی کی رہائی کے بعد کہا: ’اس ملک میں ہر فرد، خواہ وہ شہری ہو یا نہ ہو، اُن قانونی حقوق کا حقدار ہے جو انہیں قانون کے تحت حاصل ہیں۔‘
مہدوی پر کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا۔ اس کے بجائے، وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ مہدوی کی فلسطین کے حق میں سرگرمیاں ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ امن عمل کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
عدالت کے باہر مہدوی نے کہا: ’انہوں نے مجھے گرفتار کیا۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ میں نے اپنی آواز بلند کی، اور میں نے جنگ کو نہ، اور امن کو ہاں کہا۔
’کیونکہ میں نے کہا، بس بہت ہوچکا۔ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل حد سے زیادہ ہو چکا ہے۔‘
اپنے فیصلے میں، جج کرافورڈ نے کہا کہ مہدوی نے غزہ کے تنازع کے پرامن حل کی وکالت کے اپنے حق کا استعمال کیا۔ ایک غیر شہری رہائشی کے طور پر، انہیں امریکی شہریوں کی طرح ہی پہلی ترمیم کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔
جج نے مزید کہا کہ مہدوی کو جاننے والے افراد نے انہیں ایک پرامن شخصیت قرار دیا جو ایک انتہائی کشیدہ سیاسی ماحول میں اتفاق رائے کا متلاشی ہے۔
جج کرافورڈ نے لکھا: ’خواہ وہ ایک پُرجوش مقرر بھی ہوتا، ان کے طرز عمل کو پہلی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔‘