امریکی محکمہ انصاف نے وائس آف امریکہ ( وی او اے) کو مطلع کیا ہے کہ اس کا عملہ اگلے ہفتے سے پروگرامنگ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ یہ اطلاع ہفتے کو ایک صحافتی آزادی کے تحفظ کی تنظیم اور وائس آف امریکہ کے ایک ملازم نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ( اے ایف پی) کو دی۔
بین الاقوامی سامعین کے لیے چلائی جانے والی یہ امریکی حکومت کی زیر انتظام خبر رساں سروس اُس وقت سے بند ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو تحلیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہی ایجنسی وائس آف امریکہ، ریڈیو فری ایشیا اور دیگر نشریاتی اداروں کی نگرانی کرتی ہے اور ان کے لیے وفاقی فنڈز تقسیم کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے چیف نیشنل رپورٹر سٹیو ہرمن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’محکمہ انصاف کے ایک وکیل نے ہمارے وکیل ڈیوڈ سائیڈ کو ایک ای میل بھیجی، جس میں اطلاع دی گئی کہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو توقع ہے کہ وی او اے کا عملہ ’مرحلہ وار واپسی‘ کا آغاز کرے گا اور پروگرامنگ اگلے ہفتے سے بحال ہو جائے گی۔‘
وائس آف امریکہ کے دو ملازمین نے ہفتے کو بتایا کہ اُن کے کام کے ای میل اکاؤنٹس، جو منجمد کر دیے گئے تھے، دوبارہ فعال ہو گئے ہیں، حالانکہ انہیں ابھی تک باقاعدہ طور پر کام پر واپسی کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
صحافیوں کی غیر منافع بخش تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے بتایا کہ ان کے اور وی او اے کے وکلا کو محکمہ انصاف نے اطلاع دی ہے کہ نشریاتی ادارے کے ملازمین کو کام پر واپسی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق، محکمہ انصاف کی ای میل میں کہا گیا: ’ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آج یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا نے اپنے اور وی او اے کے 1,406 ملازمین اور ٹھیکے پر کام کرنے والوں کے اکاؤنٹس فعال کر دیے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو فی الحال توقع ہے کہ حفاظتی، عمارت کی گنجائش، اور آلات سے متعلق مسائل کی وجہ سے عملے کی مرحلہ وار واپسی اگلے ہفتے سے شروع ہو گی۔
وی او اے کی نشریات بھی اگلے ہفتے بحال ہونے کی توقع ہے۔‘ وی او اے کی بحالی صدر ٹرمپ کے لیے ایک طرح کی ناکامی مانی جا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اعتراض کیا تھا کہ وی او اے، جو دنیا بھر میں لاکھوں سامعین و ناظرین تک رسائی رکھتا ہے، ان کی حکومت کے مؤقف کی ترویج کیوں نہیں کرتا۔
انہیں ادارے کی ایڈیٹوریل ’فائر وال‘ پر اعتراض تھا، جو نشریاتی ادارے کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
اپریل میں وائس آف امریکہ کے کئی سابق ڈائریکٹرز نے، جنہیں مختلف ادوار میں دونوں بڑی جماعتوں نے نامزد کیا تھا، کانگریس کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ اس نشریاتی ادارے کی بحالی کے لیے مداخلت کی جائے، خاص طور پر جب ایک جج نے قرار دیا کہ ٹرمپ کی ادارے کی بندش قانونی خلاف ورزی تھی۔