ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی پریس ایجنسی کو نظرانداز کرتے ہوئے سرکاری پیسے سے چلنے والے اہم خبر رساں نیٹ ورک کے لیے پسندیدہ امیدوار کو نامزد کر دیا ہے۔
ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کیری لیک جو ایریزونا کی گورنر اور امریکی سینیٹ کے لیے رپبلکن امیدوار کے طور پر ناکام رہیں اور جنہوں نے میڈیا کا ’بدترین ڈراؤنا خواب‘ بننے کا وعدہ کیا، وائس آف امریکہ کی سربراہی کریں۔
وائس آف امریکہ، امریکہ کا سب سے پرانا بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ہے جس کی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں تک رسائی ہے۔ اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ اس نیٹ ورک اور اسے چلانے والے ادارے میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسے اپنی پروپیگنڈا مشین میں تبدیل کر سکیں اور ان اداروں کو جو دنیا بھر میں آزادانہ اطلاعات کی ترسیل کو فروغ دیتے ہیں، وائٹ ہاؤس کے سرکاری پیغام رسانی کے پلیٹ فارم میں بدل دیں۔
وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر کا انتخاب امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کے مقرر کردہ سربراہ کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو حکومت کا آزادانہ سفارتی ادارہ ہے اور ان ریاستی تعاون سے چلنے والے اداروں کی نگرانی کرتا ہے جو ان ممالک میں نشریات پیش کرتے ہیں جہاں صحافتی آزادی محدود اور خبریں حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
قانون کے مطابق وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر کو صرف امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کے سربراہ کے ساتھ کام کرنے والے دو طرفہ بورڈ کی اکثریتی رائے سے مقرر یا ہٹایا جا سکتا ہے۔
تاہم ٹرمپ نے ایجنسی کے لیے اپنا نامزد امیدوار پیش کرنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ وہ لیک کو نیٹ ورک کی سربراہی دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیک نیٹ ورک کی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں گی۔
ٹرمپ نے 11 دسمبر کو اعلان کیا کہ لیک ’یقینی بنائیں گی کہ آزادی اور حریت کی امریکی اقدار کو دنیا بھر میں منصفانہ اور درست طریقے سے پیش کیا جائےجو جعلی نیوز میڈیا کے پھیلائے گئے جھوٹوں کے برعکس ہو گا۔‘
ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ اس ادارے کے عملے کے لیے ہنگامہ خیز اور زہریلا وقت ثابت ہوا جس کی نگرانی سٹیو بینن کے اتحادی مائیکل پیک نے کی۔ پیک نے عملے کو برطرف کیا، مشاورتی بورڈز کو تحلیل کیا، اہم عہدوں پر ٹرمپ کے وفاداروں کو تعینات کیا، غیر ملکی صحافیوں کے ویزوں کی تجدید سے انکار کیا، اور خبروں کی کوریج میں مبینہ طور پر مداخلت کی۔
2020 میں خود ٹرمپ نے وائس آف امریکہ (وی او اے) کے بارے میں کہا کہ ’یہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ہمارے ملک کے لیے نفرت انگیز ہے۔‘
اسی وقت وائٹ ہاؤس کے ایک غیر دستخط شدہ بیان میں وی او اے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے چینی شہر ووہان میں کیے گئے لاک ڈاؤن ماڈل کی کوریج کے ذریعے ’بیجنگ کے پروپیگنڈے‘ کو بڑھاوا دیا اور دعویٰ کیا کہ وی او اے اکثر امریکہ کے مخالفین کی نمائندگی کرتا ہے، نہ کہ اس کے شہریوں کی۔‘
صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے دو ماہ قبل، پیک نے وی او اے کے قائم مقام سربراہ ایلز بیبرج جو اس نیٹ ورک سے 40 سال سے زیادہ عرصے سے منسلک صحافی تھے، کو ہٹا کر ان کی جگہ سابق سفارت کار رابرٹ ریلی کو مقرر کر دیا جنہیں ایل جی بی ٹی پلس لوگوں اور اسلام کے حوالے سے متنازع نظریات کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ریلی نے وی او اے کو عالمی سامعین کے لیے بطور آزاد میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنے کی بجائے امریکی پالیسی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جو قانون کے مطابق لازمی ہے۔ اس عمل نے یہ خدشات پیدا کیے کہ ٹرمپ اور ان کے اتحادی خبروں کے اس قومی عالمی ادارے کو اپنی انتظامیہ کے پروپیگنڈا کا آلہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وی او اے کو پہلی بار 1942 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی قبضے میں آنے والے علاقوں میں خبریں، موسیقی، اور مقامی پروگرام نشر کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔ اس کے بعد سرد جنگ کے دوران اور ڈیجیٹل دور میں دنیا بھر میں مقامی پروپیگنڈے اور غلط معلومات کے خلاف جمہوری مواد کے فروغ کے لیے اسے یورپ اور پوری دنیا میں توسیع دی گئی۔
امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کی فنڈنگ سے وی او اے 40 سے زیادہ زبانوں میں ڈیجیٹل، ریڈیو، اور ٹیلی ویژن کے ذریعے مواد تیار کرتا ہے، جو 2022 میں نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق ہر ہفتے 30 کروڑ سے زیادہ لوگوں تک پہنچتا ہے۔
بائیڈن نے ایجنسی کے موجودہ سربراہ کے طور پر امانڈا بینیٹ کو مقرر کیا اور مائیکل ابراہمویٹز نے قبل ازیں رواں سال موجودہ ڈائریکٹر کے طور پر حلف لیا۔
اگر ابراہمویٹز کو برطرف کر دیا جاتا ہے اور لیک کو وی او اے کی ڈائریکٹر کے طور پر تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ تقریباً 30 کروڑ ڈالر کے بجٹ اور دو ہزار سے زیادہ عالمی ملازمین جن میں سینکڑوں صحافی بھی شامل ہیں، کی نگرانی کریں گی۔
انتخابی مہم کے دوران، کری لیک نے صحافیوں کو ’عفریت‘ قرار دیا، میڈیا اداروں کو ’جھوٹی خبریں‘ اور ’قابل نفرت‘ کہا اور تجویز دی کہ صحافیوں کو افغانستان بھیج دیا جائے۔ گورنر بننے کے لیے اپنی مہم کے دوران، انہوں نے کہا: ’ہمیں پریس کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے۔ ہمیں میڈیا کی فنڈنگ ختم کرنی چاہیے۔‘
جب مائیکل پیک نے امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کا انتظام سنبھالا تو انہوں نے فوراً اس کی قیادت کو برطرف کر دیا اور بغیر ثبوت کے یہ الزام لگایا کہ ان کے پیشرو ’قومی سلامتی کے عمومی قواعدوضوابط اور اہم سرکاری انسانی وسائل کے طریقوں کو نظرانداز کر رہے تھے۔‘جس کی وجہ سے اس ادارے کی نگرانی میں چلنے والے اداروں میں جاسوسی کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وی او اے ’بہترین جگہ ہے جہاں غیر ملکی جاسوس تعینات کیے جا سکتے ہیں۔‘
اس وقت وی او اے کے عملے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ پیک کے اقدامات صحافیوں کی زندگیوں کو ان ممالک میں خطرے میں ڈال سکتے ہیں جہاں ان کی جانیں پہلے ہی خطرے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیک کی سیاسی طاقت حاصل کرنے اور ذاتی دشمنیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش ’فائر وال‘ کو تباہ کر رہی ہے، جو نیوز رومز میں سیاسی مداخلت کو روکنے کے لیے قائم کی گئی۔
وی او اے کی ’فائر وال‘ امریکی انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ کے تحت قانون میں درج ہے اور ’کسی بھی امریکی حکومتی عہدے دار کو خبروں کی معروضی اور آزادانہ رپورٹنگ میں مداخلت سے روکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں، ملازمین نے وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جس میں پیک کو عملے سے متعلق فیصلے کرنے سے روکنے کے لیے حکم امتناع کی درخواست کی گئی۔ جیسا کہ ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ایک جج نے یہ درخواست منظور کر لی اور فیصلہ دیا کہ ’پہلی ترمیم پیک اور ان کی ٹیم کو ان صحافتی اداروں کا انتظام سنبھالنے، ان کے صحافیوں کی مبینہ ’جانبداری‘ کی تحقیقات کرنے، اور ان کی رپورٹنگ کے مواد پر اثر انداز ہونے یا کنٹرول کرنے سے روکتی ہے۔‘
آفس آف سپیشل کونسل کی رپورٹ میں بعد میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پیک نے غیر قانونی طور پر ان ادارتی حفاظتی قوانین کی خلاف ورزی کی، اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور مالی وسائل کے غلط استعمال اور بدانتظامی میں ملوث رہے۔
کیری لیک تقریباً 30 سال تک فینکس میں ٹیلی ویژن نیوز اینکر رہیں، جب تک کہ 2021 میں انہوں نے مقامی فوکس چینل سے اس وقت استعفیٰ نہیں دے دیا جب ان کے سوشل میڈیا پر متنازع بیانات سامنے آئے۔ ان بیانات میں کووڈ 19 سے متعلق سازشی نظریات اور اساتذہ کی بہتر تنخواہوں کے لیے چلائی گئی مہم کو بھنگ کی قانونی حیثیت کے لیے پردہ قرار دینے کے الزامات شامل تھے۔
لیک 2022 میں گورنر کے انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کیٹی ہوبز کے خلاف کھڑی ہوئیں جنہوں نے انہیں تقریباً 17 ہزار ووٹوں سے انہیں شکست دی۔ لیک نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ٹرمپ کی طرح انتخاب میں دھاندلی کے الزامات لگائے، لیکن عدالت میں اپنی شکست کو چیلنج کرنے میں ناکام رہیں۔
اس کے بعد لیک نے 2024 میں سینیٹ کے انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار روبین گالیگو کے خلاف حصہ لیا، لیکن وہ یہ بھی ہار گئیں۔ گالیگو نے لیک کو 80 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔
© The Independent