ٹرمپ کی غزہ میں فائر بندی، قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششیں

نومنتخب امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے سفیر نے قطر اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے تاکہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کی جا سکیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ 19 دسمبر 2023 کو واٹر لو، آئیووا میں ایک انتخابی مہم کے دوران (کامل کرزاکزینسکی / اے ایف پی)

نومنتخب امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے سفیر نے قطر اور اسرائیل کا دورہ کیا ہے تاکہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے قبل غزہ میں فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سفارتی کوششوں شروع کی جا سکیں۔

مذاکرات سے آگاہ ایک ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ سٹیو وٹکوف، جو ٹرمپ انتظامیہ میں باضابطہ طور پر عہدہ سنبھالیں گے، نے نومبر کے آخر میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

سٹیو وِٹکوف کی بات چیت کا مقصد بظاہر بائیڈن انتظامیہ، قطر اور مصر کی تقریباً 14 ماہ کی ناکام سفارت کاری کو آگے بڑھانا ہے۔ اس سفارت کاری کا مقصد غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک مستقل فائر بندی اور حماس کی قید میں موجود درجنوں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ ملاقاتیں اس بات کا بھی اشارہ دیتی ہیں کہ خلیجی ریاست قطر نے گذشتہ ماہ اپنا کردار معطل کرنے کے بعد ایک اہم ثالث کے طور پر دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ امکان ہے کہ حماس کے مذاکرات کار جلد ہی مزید مذاکرات کے لیے دوبارہ قطر کے دارالحکومت دوحہ جائیں گے۔

بائیڈن کی کوششیں

ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ بائیڈن کے معاونین اسرائیلی، قطری اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حکام کے ساتھ سٹیو وٹکوف کے رابطوں سے آگاہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے نمائندے نے غزہ کے معاہدے کی حمایت کی ہے، جو اس کی انتظامیہ کی جانب سے پہلے سے طے شدہ پالیسی کے خطوط پر مبنی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹیو وٹکوف کے بجائے بائیڈن انتظامیہ غزہ میں فائر بندی کے لیے مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں امریکی برتری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حماس کے رہنماؤں نے اتوار کو قاہرہ میں مصر کے سکیورٹی حکام سے بات چیت کی ہے۔

امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے ٹرمپ کیمپ کو اپ ڈیٹ رکھا ہے لیکن دونوں فریقین نے براہ راست مل کر کام نہیں کیا۔

عہدیدار کے بقول بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسے سٹیو وٹکوف کے ساتھ رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ان کے خطے کے اہم فریقوں کے ساتھ مذاکرات زیادہ تر مسائل کو سمجھنے کی کوشش پر مبنی ہیں، نہ کہ اصل مذاکرات پر۔

ٹرمپ کی عبوری ٹیم اور سٹیو وٹکوف کے نمائندوں نے فوری طور پر ان ملاقاتوں کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ کی پٹی میں موجود اسرائیلی قیدیوں کو 20 جنوری کو حلف برداری سے قبل رہا نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں اس کی ’قیمت چکانی‘ پڑے گی۔

وٹکوف کے علاقائی مذاکرات

سٹیو وٹکوف ایک رئیل سٹیٹ سرمایہ کار ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کو مالی معاونت فراہم کی ہے۔ ان کے قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں، لیکن ان کے پاس پہلے سے کوئی سفارتی تجربہ نہیں ہے۔

انہوں نے 22 نومبر کو دوحہ میں شیخ محمد سے ملاقات کی جو وزیر خارجہ بھی ہیں۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل غزہ میں فائر بندی ضروری ہے تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ غزہ اور خطے کے استحکام جیسے دیگر معاملات پر آگے بڑھ سکے۔‘

سٹیو وٹکوف نے 23 نومبر کو اسرائیل میں نتن یاہو سے ملاقات کی تھی۔

قطر کی وزارت خارجہ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ایک اسرائیلی عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ وٹکوف نے اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔

عہدیدار نے کہا کہ انہوں نے ’ان سے حلف برداری سے قبل معاہدے کے لیے ٹرمپ کی ٹیم کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔‘

شیخ محمد 24 نومبر کو ویانا گئے تھے جہاں انہوں نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا سے ملاقات کی، جو گذشتہ 14 ماہ سے قطر کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے سربراہ رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا اگلا دور جلد دوحہ میں ہونے کا منصوبہ ہے تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی۔‘

قطری حکام کا کہنا ہے کہ حماس کی مذاکراتی ٹیم حالیہ ہفتوں میں دوحہ سے روانہ ہوئی تھی جب واشنگٹن نے ان کی موجودگی پر اعتراض کیا تھا۔ اس کے بعد حماس نے اکتوبر کے وسط میں مذاکرات کے بعد قلیل مدتی فائر بندی کی تجویز مسترد کر دی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کے مذاکرات کار نئے مذاکرات کے لیے دوحہ واپس آ سکتے ہیں۔

 ٹرمپ کا انتباہ

ٹرمپ کے انتباہ پر بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ کو رؤئٹرز کو بتایا کہ ان کا یہ بیان فائر بندی اور قیدیوں کے معاہدے کے لیے رپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کے درمیان فوری ضرورت کی ’مؤثر عکاسی‘ ہے۔

بلنکن نے کہا: ’ہم قیدیوں کی واپسی اور فائر بندی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور میرے خیال میں نومنتخب صدر کا بیان اس بات کو تقویت دیتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا