خواتین ایتھلیٹس مرد کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ سکتی ہیں، تحقیق

ایک نئی تحقیق کے مطابق خاتون ایتھلیٹس مرد ایتھلیٹس کے ساتھ کارکردگی کے فرق کو تیزی سے کم کر رہی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ جلد ہی طویل میراتھن جیسے انتہائی سخت مقابلوں میں انہیں پیچھے چھوڑ دیں۔

کینیا کی شیرون لوکیڈی نے بوسٹن، میساچوسٹس میں 21 اپریل 2025 کو 129 ویں بوسٹن میراتھن خواتین کا ڈویژن جیتنے کے لیے فائنل لائن عبور کی (اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق کے مطابق خواتین ایتھلیٹس مرد ایتھلیٹس کے ساتھ کارکردگی کے فرق کو تیزی سے کم کر رہی ہیں اور ممکن ہے کہ وہ جلد ہی طویل میراتھن جیسے انتہائی سخت مقابلوں میں انہیں پیچھے چھوڑ دیں۔

تاریخی اعتبار سے مردوں نے اولمپکس کی 100 میٹر کی دوڑ جیسے مقابلوں میں خواتین سے بہتر کارکردگی دکھائی، جب کہ خواتین نشانہ بازی اور گھڑسواری جیسے کھیلوں میں نمایاں رہی ہیں۔

20ویں صدی سے ایتھلیٹکس میں مرد و خواتین کی کارکردگی کا فرق کم ہونا شروع ہوا اور اس کے بعد ایک عرصے تک یہ فرق تقریباً مستحکم رہا۔

اب جریدے فرنٹیئرز اِن فزیالوجی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین ایتھلیٹس طویل میراتھن اور آرکٹک مہمات جیسے سخت مقابلوں میں مردوں سے کارکردگی کے فرق کو تیزی سے کم کر رہی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک دن ان میدانوں میں انہیں پیچھے چھوڑ دیں۔

اب تک سائنس دانوں کی معلومات میں صنفی فرق سے متعلق جو کچھ شامل رہا ہے، وہ زیادہ تر تجربہ گاہوں میں مطالعات سے حاصل ہوا۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ مطالعات سائنسی طور پر منظم ہوتے ہیں اور جسمانی نظام سے متعلق اہم پہلو ظاہر کرتے ہیں، مگر ان کا ’حقیقی دنیا‘ کے حالات سے براہ راست تعلق کم ہوتا ہے۔

حقیقی دنیا میں انتہائی سخت مقابلوں میں ایتھلیٹس کی کارکردگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ مردوں اور خواتین کے درمیان کارکردگی کا فرق مجموعی طور پر کم ہو رہا ہے۔

مثال کے طور پر، مردوں کا میراتھن میں موجودہ عالمی ریکارڈ کینیا کے وفات پاجانے والے ایتھلیٹ کیلون کپٹم کس ہے، جو انہوں نے 2023 میں شکاگو میں ہونے والی میراتھن میں دو گھنٹے اور 35 سیکنڈ میں بنایا۔

اس کے مقابلے میں خواتین کا ریکارڈ بھی اسی ایونٹ میں کینیا کی روتھ چپنیا ٹیچ نے قائم کیا، جنہوں نے دو گھنٹے 9 منٹ اور 56 سیکنڈ میں میراتھن مکمل کی۔ وہ مرد ہم وطن سے صرف تقریباً 10 منٹ پیچھے رہیں۔

2002 میں دوڑ کی لیجنڈ پیامیلا ریڈ نے بیڈ واٹر الٹرا میراتھون جیتی، جو کیلی فورنیا کی ڈیتھ ویلی میں سخت ترین 218 کلومیٹر (135 میل) طویل دوڑ ہے، اور اس میں انہوں نے تمام مرد مقابلوں کو شکست دی۔

اگرچہ طاقت، رفتار اور قوت جیسے عوامل عام طور پر مردوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں، مگر حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جیسے جیسے کسی مقابلے کا فاصلہ یا دورانیہ بڑھتا ہے، مرد و خواتین کی کارکردگی کا فرق کم ہوتا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بہتر جوتے، رفتار کا تعین کرنے والے اور متوازن غذا جیسے عوامل انتہائی سخت مقابلوں میں مردوں اور خواتین کی کارکردگی کے فرق کو مزید کم کر سکتے ہیں۔

انتہائی حالات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر میٹابولک کارکردگی بھی ظاہر کرتی ہیں۔

یہ رجحان خاص طور پر ان مقابلوں میں نمایاں ہوتا ہے جو شدید سردی میں منعقد ہوتے ہیں۔

تازہ ترین تحقیق کے مطابق، الاسکا ماؤنٹین وائیلڈرنس سکی کلاسک، جو ایک دور دراز اور بغیر کسی مدد کے ہونے والی 200 کلومیٹر طویل آرکٹک سرمائی مہم ہے، میں خواتین نے سامان اٹھانے میں مردوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر کم توانائی خرچ کی۔

ماہرین ایک رجحان کو ’آرکٹک شفٹ‘ قرار دیتے ہیں، جو خواتین کھلاڑیوں میں دیکھا گیا، جس کے تحت ان کے جسم میں سردی سے پیدا ہونے والی حرارت کی افزائش مردوں کے مقابلے میں کم درجہ حرارت پر شروع ہو جاتی ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ جسمانی عمل سرد موسم میں ان کی میٹابولک ضروریات کو کم کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ چار دہائیوں کے دوران 6، 72، 144 اور 240 گھنٹے طویل مقابلوں میں مردوں اور خواتین کے درمیان دورانیے کا فرق تقریباً تین فیصد کم ہوا۔

جب مرد اور خواتین کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہو، تو یہ فرق مزید کم ہو جاتا ہے، لیکن ایسے انتہائی سخت مقابلوں میں اعلیٰ درجے کی خواتین کھلاڑیوں کی شرکت اب بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ وہ مزید تحقیق کریں گے جس میں یکون آرکٹک الٹرا (وائے اے یو) جیسے سخت ترین مقابلوں میں شریک افراد کے پلازما، خون، فضلے، بال، پٹھوں اور چربی کے نمونے حاصل کر کے ان کی جانچ کی جائے گی۔ یہ دنیا کا سب سے طویل اور سرد ترین الٹرا میراتھن ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ایسے برداشت طلب مقابلوں سے حاصل ہونے والے ابتدائی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین جسمانی اور غذائی دباؤ کے دوران میٹابولزم کے لحاظ سے مردوں کے برابر، بلکہ ممکنہ طور پر ان سے زیادہ مضبوط ثابت ہو سکتی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس