امریکی گلوکار ایلوس پریسلی نے یہ گانا 'ہارٹ بریک ہوٹل‘ گایا اور اب امریکی محکمہ صحت کے ایک اہم ماہر کا کہنا ہے کہ یہ کلاسیکی گیت خطرناک حقیقت بن چکا ہے یعنی امریکی خود کو اتنا تنہا محسوس کر رہے ہیں کہ وہ اس سے مر سکتے ہیں۔
سابق امریکی سرجن جنرل وویک مرتھی نے خبردار کیا ہے کہ مسلسل تنہائی کے صحت پر منفی اثرات امریکہ میں کچھ بڑے جان لیوا عوامل کے برابر ہیں۔
انہوں نے اتوار کو این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ میں کہا کہ ’سماجی تنہائی سے جڑی مجموعی اموات میں اضافہ، سگریٹ نوشی اور موٹاپے کے جاں لیوا اثرات کے برابر ہے۔
’تنہائی اتنی ہی طاقتور اور اہم ہے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ تنہائی اور الگ تھلگ رہنا انسانوں میں خطرناک طبی مسائل کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔
مرتھی نے حیران کن طور پر کہا کہ مسلسل تنہائی کا اثر روزانہ 15 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بات یہ ہے کہ ہمارا ایک دوسرے سے جڑے ہونا محض اچھی بات نہیں، بلکہ یہ ہمارے لیے حیاتیاتی طور پر ناگزیر ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہماری بقا کے لیے ضروری ہے جیسے خوراک اور پانی۔‘
تنہائی اور الگ تھلگ ہونے کی وبا کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا بائیڈن انتظامیہ کے دوران ان کے کام کا ایک بڑا حصہ رہا۔ انہوں نے 2023 میں اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایڈوائزری بھی جاری کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس رہنمائی میں چھ نکاتی عملی منصوبہ شامل تھا، جس میں باہمی روابط کو فروغ دینے والی پالیسیاں نافذ کرنا، ڈیجیٹل ماحول میں اصلاحات لانا، اس موضوع پر مزید تحقیق کرنا، اور تعلق پر مبنی ثقافت کو فروغ دینا شامل تھا۔
مرتھی نے اس وقت کہا تھا کہ دوسروں سے کمزور سماجی تعلقات کے نتائج میں دل کی بیماری کے خطرے میں 29 فیصد اضافہ، فالج کے خطرے میں 32 فیصد اضافہ، بڑی عمر کے افراد میں ڈیمنشیا کا خطرہ 50 فیصد بڑھ جانا، اور قبل از وقت موت کا خطرہ 60 فیصد زیادہ ہو جانا شامل ہے۔ اس کا تعلق ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے میں اضافے سے بھی ہے۔
یہ صرف جسمانی اثرات میں سے چند تھے۔ اس کے علاوہ، جو افراد خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، ان میں ڈپریشن کا خطرہ ان لوگوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہوتا ہے جو شاذ و نادر یا کبھی تنہائی محسوس نہیں کرتے۔ بچپن میں اکیلے پن اور سماجی تنہائی کا سامنا کرنا بھی ڈپریشن اور بے چینی کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔
سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق امریکہ میں ہر تین میں سے تقریباً ایک بالغ فرد خود کو تنہا محسوس کرنے کی بات کرتا ہے، اور ہر چار میں سے ایک فرد یہ بتاتا ہے کہ اسے سماجی اور جذباتی مدد حاصل نہیں۔
کچھ افراد اور گروہ تنہائی کے خطرے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، جن میں کم آمدنی والے بالغ افراد، نوجوان، بزرگ، تنہا رہنے والے افراد، تارکین وطن، ذہنی یا جسمانی چیلنجز کا سامنا کرنے والے لوگ، تشدد یا بدسلوکی کے شکار افراد، کسی عزیز کے بچھڑنے یا بے روزگاری کا سامنا کرنے والے اور ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس برادری کے افراد شامل ہیں۔
مرتھی نے کہا کہ بچوں کو تنہائی کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مرتھی نے کہا: ’ہم عموماً یہ سوچتے ہیں کہ 'اوہ، بچے سوشل میڈیا پر ہیں، یہ اچھی بات ہے کیوں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘ لیکن نہیں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آن لائن تعلقات اور آمنے سامنے کے تعلقات کے درمیان فرق ہے۔‘
چوں کہ زیادہ تر تعلقات آن لائن منتقل ہو چکے ہیں، اس لیے زیادہ بچے ایک شدید‘ موازنہ کرنے والی ثقافت کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ ایسے بننے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ حقیقت میں نہیں ہیں، اور ان کے پاس آمنے سامنے کی دوستیوں کی اتنی تعداد نہیں جتنی ہمیں درکار ہوتی ہے۔
مرتھی نے ایک پرانی بات یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں ملک بھر کا سفر کر رہا تھا تو ایک طالب علم نے کالج میں مجھ سے کہا کہ ’ہم ایک دوسرے سے کیسے جڑیں جب اس وقت لوگوں کا آپس میں بات کرنا ہی ثقافت کا حصہ نہیں رہا؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اور میں نے یہ بات واقعی کالج کیمپسز میں دیکھی۔‘
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک قومی سروے میں پہلے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ 73 فیصد افراد نے ٹیکنالوجی کو ملک میں تنہائی میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔
مرتھی نے مزید کہا کہ ’والدین کے پاس اس وقت فکرمند ہونے کی واقعی معقول وجہ موجود ہے۔‘
© The Independent