کیا انڈیا واقعی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا؟

انڈین عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انڈیا جاپان کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ، چین اور جرمنی کے بعد چوتھے نمبر پر آ گیا ہے، مگر کیا یہ درست ہے؟

تین اپریل 2025 کو نئی دہلی کی منی مارکیٹ (اے ایف پی)

ایک اعلیٰ انڈین عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کا درجہ حاصل کر لیا ہے، جو ایک اہم علامتی سنگِ میل ہو گا۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں اس دعوے پر جو خوشی منائی جا رہی ہے، وہ قبل از وقت ہے۔

یہ دعویٰ انڈین حکومت کے پبلک پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ کے سربراہ بی وی آر سبرا منیم نے کیا۔ انہوں نے اتوار کو ایک براہِ راست نشر ہونے والی پریس بریفنگ میں کہا، ’اس وقت جب میں بات کر رہا ہوں، ہم دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکے ہیں۔ ہماری معیشت 4000 ارب ڈالر کی ہے۔ اور یہ میرا نہیں، بلکہ آئی ایم ایف کا ڈیٹا ہے۔ انڈیا آج جاپان سے آگے ہے۔‘

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ انڈیا تین سال میں جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر تیسری بڑی معیشت بن جائے گا، اور صرف امریکہ اور چین ہی انڈیا سے بڑی معیشتیں رہ جائیں گی۔

’بس امریکہ، چین اور جرمنی ہم سے آگے ہیں۔ اگر ہم اپنی منصوبہ بندی پر قائم رہے تو ڈھائی سے تین سال میں ہم تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے۔‘

انڈیا میں کئی رپورٹوں نے اس دعوے کو بلا تحقیق قبول کر لیا، لیکن دی انڈپینڈنٹ سے بات کرنے والے ماہرین نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا، اور کہا کہ یہ اندازے دراصل آئی ایم ایف کی پیش گوئیوں پر مبنی ہیں، موجودہ اعداد و شمار پر نہیں۔ اور اگر یہ سنگِ میل حاصل بھی ہو جائے، تو بھی ملک میں موجود گہری سماجی و اقتصادی ناہمواری اور مسائل سے توجہ ہٹانا درست نہیں ہو گا۔

آئی ایم ایف کے مطابق انڈیا 2026 میں جاپان کو پیچھے چھوڑے گا، اور اگلے سال جرمنی کو۔ تاہم سبرا منیم کا یہ دعویٰ کہ انڈیا پہلے ہی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے، فی الوقت درست نہیں۔

آئی ایم ایف کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، 2025 میں انڈیا کی معیشت 3909 ارب ڈالر اور جاپان کی 4026 ارب ڈالر کی ہے۔

سبرا منیم کے بیان کے اگلے ہی دن نیتی آیوگ کے رکن اور ماہرِ معیشت اروِند وِرمانی نے وضاحت کی کہ انڈیا مالی سال 2025-26 میں چوتھی بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا، ’کئی تجزیوں کے مطابق جب 2025 کے ڈیٹا کا اجرا ہو گا، تو ظاہر ہو گا کہ انڈیا کی معیشت جاپان سے بڑھ چکی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2025 تک انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جائے گا، اور 2027-28 میں تیسری بڑی۔‘

آئی ایم ایف کے مطابق 2026 میں انڈیا کی معیشت 4187 ارب ڈالر اور جاپان کی 4186 ارب ڈالر ہو گی، یعنی دونوں میں صرف ایک ارب ڈالر کا معمولی فرق ہو گا۔

نتیکسس ہانگ کانگ کی چیف اکانومسٹ ایلیسیا گارشیا ہیریرو کا کہنا ہے کہ یہ کنفیوژن شاید آئی ایم ایف کی 2025-26 کی پیش گوئیوں کو موجودہ صورت حال سمجھنے کی غلطی سے پیدا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، ’صرف معیشت کا سائز کوئی معقول پیمانہ نہیں کہ انڈیا کیسا کر رہا ہے۔ فی کس آمدنی اور آمدنی کی تقسیم پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔‘

سینیئر ماہرِ معیشت رفیق دوسانی کا کہنا ہے کہ اگر جاپانی کرنسی 2026 تک روپے کے مقابلے میں ایک فیصد بھی بہتر ہو گئی تو جاپان کی معیشت پھر بھی آگے رہ سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’انڈیا کی کامیابی کو یوں بیان کرنا بہتر ہو گا کہ اس نے صنعتی طاقت جاپان کے قریب پہنچنے کا سفر طے کیا ہے، لیکن جاپان جیسے معیارِ زندگی کے حصول کے لیے ابھی طویل فاصلہ باقی ہے۔‘

آئی ایم ایف کے مطابق 2026 میں انڈیا کی معیشت کی شرحِ نمو 6.2 فیصد اور 2027 میں 6.3 فیصد رہے گی۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے 2026 میں شرحِ نمو 6.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔

ممبئی کے انڈرا گاندھی انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ ریسرچ کی ماہرِ معیشت راجیسوری سین گپتا کہتی ہیں کہ اگرچہ انڈیا کی معیشت کی مسلسل 6-6.5 فیصد شرحِ نمو قابلِ تعریف ہے، لیکن جاپان کو پیچھے چھوڑنے میں جاپانی معیشت کی سست روی کا بھی اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا، ’گذشتہ 10-15 برسوں میں جاپان کی معیشت سکڑ رہی ہے اور اس کی آبادی تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں جاپان کی معیشت 5300 ارب ڈالر تھی، جو 2023 تک 4200 ارب ڈالر رہ گئی۔ اس دوران انڈیا کی معیشت دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔ لہٰذا یہ دو ترقی کرتی معیشتوں کا نہیں بلکہ ایک بڑھتی اور ایک جمود کا شکار معیشت کا موازنہ ہے۔‘

1980  کی دہائی میں جاپان دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے قریب تھا، مگر 1990 کی دہائی میں معیشت کی سست روی اور مہنگائی میں کمی (ڈی فلیشن) کے باعث جاپان ’گمشدہ دہائی‘ میں داخل ہو گیا، اور پھر چین نے اسے پیچھے چھوڑ دیا۔

انڈیا 2023 میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں بڑی معیشت بنا تھا، اور اس کے لیے معاشی منظرنامہ پیچیدہ ہے، کیونکہ آبادی کی اکثریت اب بھی زندگی کی بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

ہیرو کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ انڈیا اب بھی غریب ہے۔ 2025 میں انڈیا کی فی کس جی ڈی پی 2,880 ڈالر جبکہ جاپان کی 33,960 ڈالر ہو گی۔‘

خریداری کی قوت کے مطابق جب فی کس آمدنی کا موازنہ کیا جائے تو فرق کچھ کم ہوتا ہے۔ 2025 میں انڈیا کی 11,228 ڈالر اور جاپان کی 52,712 ڈالر۔


چین، جس کی آبادی انڈیا کے برابر ہے، اس کی فی کس آمدنی بھی انڈیا سے کہیں زیادہ 27,093 ڈالر ہے۔

سین گپتا کہتی ہیں، ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ مجموعی معیشت کے حجم میں انڈیا اور جاپان ایک جیسے ہو گئے ہیں، مگر معیارِ زندگی میں جاپان اب بھی بہت آگے ہے۔‘

ہیرو نے مزید کہا، ’تعلیم، صحت اور غربت میں کمی جیسے شعبوں میں انڈیا کی کارکردگی اب بھی کمزور ہے۔ آمدنی کی ناہمواری بھی جاپان کے مقابلے میں نمایاں ہے۔‘

سین گپتا کا کہنا ہے کہ معیشت کے حجم پر توجہ دینے کے بجائے ترقی کے معیار اور 1.4 ارب عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا