یمن میں ایک انڈین نرس کے ہاتھوں قتل ہونے والے یمنی شخص کے اہل خانہ نے خاتون کو معاف کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس کے باعث ان کے گھر والوں کی جانب سے معافی کے لیے کسی سمجھوتے کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔
مقتول طلال عبدو مہدی کے بھائی نے کہا کہ وہ ’کسی بھی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں کریں گے‘ اور یہ کہ ’خون کا سودا نہیں ہو سکتا۔‘ ایک روز قبل دباؤ کے نتیجے میں نمیشا پریا نامی نرس کی سزائے موت ملتوی کی گئی تاکہ معافی کے لیے مزید وقت مل سکے۔
جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ نمیشا پریا کو 2017 میں اپنے کاروباری پارٹنر کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور 2020 میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ پریا نے قتل کے الزام سے انکار کیا ہے۔ طلال عبدو مہدی کی لاش کی باقیات ٹکڑوں کی شکل میں پانی کے ٹینک سے ملیں۔
ان کے بھائی عبدالفتح مہدی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر لکھا کہ ’سزا میں حالیہ تاخیر پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی، البتہ ہم اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جو لوگ مداخلت کر رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں کرتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالفتاح مہدی نے کہا: ’ہمارے لیے انصاف کا مطلب صرف سزائے موت ہے۔ کوئی دباؤ یا تاخیر اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ خون کا سودا نہیں ہو سکتا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سزا مؤخر ہوئی ہے مگر ان کا خاندان انصاف کے لیے اپنی کوشش جاری رکھے گا۔ ’خدا کی مدد سے۔‘
عبدالفتح کا کہنا تھا کہ انہیں سزا ملتوی کروانے کی کوششوں پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ ’درپردہ ثالثی کی کوششیں پہلے سے جاری تھیں، لیکن ہم پر جو دباؤ ڈالا گیا اس سے ہمارا مؤقف نہیں بدلا۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ قصاص، اور کچھ بھی نہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘
ان کا یہ بیان اس واقعے کے ایک روز بعد سامنے آیا جب یمن کے صدر رشاد العلیمی نے نمیشا پریا کی سزا پر بدھ سے ایک روز قبل عمل درآمد ملتوی کر دیا۔
سزا کا التوا نمیشا پریا کے لیے محض عارضی ریلیف ہے کیوں کہ انہیں صرف مقتول کے ورثا ہی معاف کر سکتے ہیں۔
یمن کے اسلامی عدالتی نظام کے تحت قتل، منشیات کی سمگلنگ، ارتداد، زنا اور ہم جنس پرستی پر موت کی سزا دی جاتی ہے، تاہم قتل کے مجرم کو مقتول کے اہل خانہ دیت لے کر معاف کر سکتے ہیں۔
نمیشا پریا کے اہل خانہ نے انڈیا میں ایک کروڑ ڈالر (735000 پاؤنڈ) جمع کر لیے ہیں اور وہ یہ رقم مہدی کے خاندان کو دینے پر تیار ہیں مگر وہ معاف کرنے سے گریزاں ہیں۔
نمیشا پریا 2008 میں بطور نرس کام کرنے کے لیے یمن پہنچی تھیں۔ انہوں نے یمنی قانون کے مطابق طلال مہدی کے ساتھ مل کر کلینک قائم کیا کیوں کہ قانون کے تحت غیر ملکی کاروباری افراد کے لیے مقامی شہریوں کے ساتھ اشتراک کرنا ضروری ہے۔
تاہم انہیں 2017 میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب مہدی کے قتل کے بعد ان کی لاش پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی۔
اہل خانہ نے اس سے قبل دعویٰ کیا کہ مقتول طلال مہدی، نمیشا پریا پر ذہنی، جسمانی اور مالی تشدد کرتے تھے۔ نمیشا پریا نے 2016 میں مہدی کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کروائی تھی، جس پر انہیں مختصر عرصے کے لیے گرفتار بھی کیا گیا لیکن رہائی کے بعد مبینہ طور پر انہوں نے دوبارہ دھمکیاں شروع کر دیں۔ تاہم مہدی کے خاندان نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
2020 میں یمن کی مقامی عدالت نے نمیشا پریا کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن 2023 میں اپیل مسترد کر دی گئی۔
خاتون کی والدہ، جو کیرالہ کے شہر کوچی میں گھروں میں کام کرتی ہیں، گذشتہ ایک سال سے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے یمن میں موجود ہیں۔
نمیشا پریا ابھی تک یمن کے دارالحکومت صنعا میں قید ہیں، جو حوثی فورسز کے زیر انتظام ہے۔
© The Independent