یمنی کاروباری ساتھی کے قتل کے جرم میں ایک سزا یافتہ انڈین نرس کی جان بچانے کی آخری کوششوں میں شامل ایک مذاکرات کار کے مطابق نرس کی سزائے موت کی تاریخ 16 جولائی مقرر کی گئی ہے۔
38 سالہ نمیشا پریا کو، جو انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھتی ہیں، 2020 میں طلال عبدو مہدی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
مہدی ایک یمنی شہری تھے جو صنعا میں ان کے ساتھ مل کر کلینک چلاتے تھا۔ پریا کو 2017 سے یمن کے دارالحکومت صنعا کی ایک جیل میں قید رکھا گیا ہے۔
وہ اپنا پاسپورٹ واپس لینے کی کوشش میں مہدی کو سکون آور دوا دینے کی مرتکب پائی گئیں، جو مہلک ثابت ہوئی۔
یمنی قانون کے تحت قتل، منشیات کی سمگلنگ، مرتد ہونے، زنا اور ہم جنس پرستی جیسے جرائم پر سزائے موت دی جاتی ہے۔
تاہم مقتول کے اہل خانہ کی رضامندی سے ’دیت‘ یا خون بہا کے بدلے معافی کی گنجائش موجود ہے۔
سیموئل جیروم باسکرن نے، جو ایک سماجی کارکن ہیں اور نرس کی طرف سے یمنی حکام اور مقتول کے اہل خانہ سے مذاکرات کر رہے ہیں، اس ممکنہ پھانسی کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’پبلک پراسیکیوٹر نے جیل حکام کو پھانسی کا پروانہ جاری کر دیا ہے۔ پھانسی 16 جولائی کو مقرر ہے۔
’ابھی بھی کچھ راستے کھلے ہیں۔ انڈیا کی حکومت اس معاملے میں مداخلت کر کے ان کی جان بچا سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ یمن واپس جا رہے ہیں تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں کیونکہ مقتول کے اہل خانہ کو دی گئی پیش کش کا کوئی جواب نہیں ملا۔
باسکرن نے کہا ’ہم نے آخری ملاقات میں اہل خانہ کو ایک پیش کش کی تھی۔ اب تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
پریا 2008 میں یمن منتقل ہوئیں اور بالآخر یمنی قانون کے تحت، جو غیر ملکی کاروباری افراد کو مقامی شہریوں کے ساتھ شراکت داری کا پابند کرتا ہے، مہدی کے ساتھ ایک کلینک قائم کیا۔
ان کے خاندان کا پہلے سے یہ الزام رہا ہے کہ پریا کو مہدی کے ہاتھوں ذہنی، جسمانی اور مالی زیادتی کا سامنا رہا۔
انہوں نے 2016 میں ان کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی، جس کے نتیجے میں مہدی کو عارضی طور پر گرفتار کیا گیا، لیکن رہائی کے بعد وہ مبینہ طور پر دوبارہ انہیں دھمکانے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ 2018 میں پریا کی سزا کے بعد سے اس کیس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔
انڈین خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے وزارت کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا ’ہم مقامی حکام اور ان کے خاندان سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ہر ممکن مدد فراہم کی گئی ہے۔‘
وزارت خارجہ حوثیوں کے ساتھ محدود سفارتی روابط کے باوجود مداخلت کے امکانات کا جائزہ لیتی رہی ہے، جو یمن کے بیشتر حصے پر حکمرانی کرتے ہیں۔
نرس کی والدہ پریما کماری جو کوچی شہر میں گھریلو ملازمہ ہیں، گذشتہ ایک سال سے یمن میں اپنی بیٹی کی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
دسمبر میں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ انہیں سرکاری ٹریول ایڈوائزری سے استثنیٰ دیا جائے، جو انڈین شہریوں کو شورش زدہ یمن جانے سے منع کرتی ہے۔
وہ اپنی بیٹی سے جیل میں کئی بار ملاقات کر چکی ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں ایک جذباتی اپیل میں محترمہ کماری نے کہا ’میں انڈین اور کیرالا حکومتوں اور بیٹی کی جان بچانے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی اب تک فراہم کردہ تمام مدد پر دلی طور پر شکر گزار ہوں۔
’لیکن یہ میری آخری التجا ہے — براہ کرم ہماری مدد کریں تاکہ ہم اس کی جان بچا سکیں۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔‘
پریا خلیجی ممالک میں سزائے موت کا سامنا کرنے والی حالیہ انڈین شہری ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں متحدہ عرب امارات میں کم از کم تین انڈین شہریوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔
© The Independent