خیرپور میرس پولیس کے مطابق جمعے کے شب انسداد دہشت گردی لاڑکانہ کے انچارج اور سیشن جج کے سکواڈ پر مسلح افراد کی فائرنگ میں جج محفوظ رہے تاہم ایک پولیس اہلکار جان سے چلے گئے جب کہ واقعے میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
خیرپور میرس پولیس کے ترجمان وقار علی سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افراد کی فائرنگ سے انسداد دہشت گردی لاڑکانہ کی عدالت کے انچارج اور سیشن جج لاڑکانہ سمکان احمد مغل محفوظ رہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق گذشتہ رات سندھ ہائی کورٹ بینج سکھر کی جانب سے ایک تقریب میں شرکت کے بعد سمکان احمد مغل لاڑکانہ جا رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقار علی سومرو کے مطابق جج سمکان احمد مغل ڈسٹرکٹ سیشن جج لاڑکانہ ہیں اور ان کے پاس انسداد دہشت گردی لاڑکانہ کی عدالت کا بھی چارج ہے۔
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے وقار علی سومرو نے کہا: ’یہ واقعہ گذشتہ رات دیر سے پیش آیا، جب جج سمکان احمد مغل کا سکواڈ لاڑکانہ جارہا تھا تو ٹنڈو مستی تھانے کے حد میں روڈ پر کھڑے مسلح افراد نے گاڑیوں کو روکنے کا اشارہ کیا، گاڑی نہ رکنے پر مسلح افراد نے فائرنگ شروع کردی۔
’مسلح افراد کی فائرنگ سے لاڑکانہ پولیس کے وی آئی پی سکواڈ کی موبائیل پر گولیاں لگیں، اس دوران پولیس اہلکار مقبول شیخ جان سے گئے۔ جب کہ دو اہلکار اقبال ملانو اور صغیر احمد زخمی ہو گئے۔‘
ترجمان خیرپور میرس پولیس سے جب پوچھا گیا کہ کیا جج سمکان احمد مغل کی عدالت میں حساس نوعیت کے کیس تھے، جن کے باعث حملہ ہوا یا یہ صرف شاہراہوں پر لوٹ مار کرنے والے ملزمان کی واردات تھے؟
اس سوال کے جواب میں وقار علی سومرو نے کہا: ’اس بات کا تاحال پتہ نہیں لگا ہے کہ جج سمکان احمد مغل کے سکواڈ پر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، یا شاہراہ پر گاڑیاں روک کر لوٹ مار کرنے والے ملزمان تھے۔ پولیس اس پر تفتیش کر رہی ہے۔‘
وقار علی سومرو کے مطابق واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقعے پر پہنچ گئی۔
’پولیس نے دریائے سندھ کے کچے کی طرف جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی ہے، کیوں کہ عام طور شاہراہوں پر رات کے اوقات میں دریائے سندھ کے کچے سے ملزمان باہر آ کر وارداتیں کرتے ہیں۔‘
واقعے کے مقدمے کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان خیرپور میرس پولیس نے کہا: ’تاحال واقعے کا مقدمہ دائر نہیں ہوا ہے۔ حملے کے دوران جان سے جانے والے پولیس اہلکار مقبول شیخ کی نماز جنازہ کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے گی۔‘
یاد رہے کہ شمالی سندھ کے اضلاع سے منسلک دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں گذشتہ کئی دہائیوں سے ڈاکو سرگرم ہیں۔ یہ ڈاکو نہ صرف اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے ہیں بلکہ شمالی سندھ کی مرکزی شاہراہوں پر رات کے اوقات میں گزرنے والی گاڑیوں کو روک کر لوٹ مار کرتے ہیں۔