سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے ویٹنگ ایریا میں ہر صبح ہلکی موسیقی کی مدھم دھنیں گونجتی ہیں جو ہسپتال کی راہداریوں میں سکون اور اُمید کی فضا بکھیر دیتی ہیں۔
یہ دھنیں کسی مشہور گلوکار کی نہیں بلکہ ایک نابینا خاتون کی انگلیوں سے کی بورڈ پر جنم لیتی ہیں۔ 44 سالہ زینب عمران، جو عملے اور مریضوں میں ادارے کی ’کوئل‘ کے نام سے معروف ہیں، گذشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں لانے کے مشن پر ہیں۔
زینب ہر روز بچوں کے وارڈ میں اپنی آواز کا جادو جگاتی ہیں۔ ان کے گرد بچے جمع ہو جاتے ہیں، کچھ ان کے ساتھ بیٹھ کر دھنوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنے والدین کی گود میں چپ چاپ یہ سکون بخش لمحے سمیٹتے ہیں۔
زینب نے تقریب کے دوران عرب نیوز کو بتایا: ’اگر میرے گانے سے ان بچوں کو خوشی ملتی ہے تو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں دیکھ نہیں سکتی لیکن میں ان کا درد محسوس کرتی ہوں کہ وہ کیا جھیل رہے ہیں، یہ ان کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہو گا لیکن جب وہ مسکراتے ہیں، چاہے لمحہ بھر کو ہی کیوں نہ ہو، تو مجھے دل کی گہرائیوں سے سکون ملتا ہے۔‘
زینب کا سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن سے تعلق فروری 2004 میں اس وقت قائم ہوا جب وہ جاوید میر سے ملیں جو پولیو کے شکار ایک موسیقار تھے اور قومی ٹیلی وژن پر بچوں کے لیے موسیقی کے پروگرام میں پرفارم کرتے تھے۔
زینب نے اس حوالے سے بتایا: ’وہ میرے ساتھ بیٹھتے تھے اور بچوں کے لیے گاتے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت حوصلہ دیا اور بہت کچھ سکھایا۔‘
تقریباً دو دہائیاں قبل سوئٹ کے بچوں کے وارڈ میں اپنے پہلے پروگرام کے دوران زینب نے کی بورڈ پر ملی نغمے بجائے۔
ان کے مطابق بچوں کا ردعمل حیران کن تھا، تالیوں کی گونج، مسکراہٹیں اور قہقہے کمرے میں گونجنے لگے لیکن اس خوشی کے پیچھے تکلیف بھی نمایاں تھی۔
جیسا کہ زینب نے بتایا کہ ’بہت سے بچے رو رہے تھے، وہ شدید تکلیف میں تھے۔‘
اس پر زینب کی والدہ نے انہیں نرمی سے کہا کہ وہ ہمت رکھیں اور ان بچوں کے لیے گاتی رہیں جنہیں ان کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سوئٹ کے بانی پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی حمایت ان کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ تھی۔
ان کے بقول: ’رضوی صاحب نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ تم ہماری بیٹی ہو، تم سب کچھ کر سکتی ہو۔ انہوں نے مجھے ہمت دی۔‘
زینب تب سے اس ادارے کی سریلی آواز بن چکی ہیں۔ ان کے لیے موسیقی صرف فن نہیں بلکہ دوا بھی ہے۔
جیسا کہ انہوں نے بتایا: ’اکثر کہا جاتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے، اگر آپ اداس ہوں یا دل بھرا ہوا ہو، تو بس کوئی دھن گنگنا لیں، دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ میرے لیے موسیقی یہی ہے۔‘
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کراچی کا ایک ممتاز طبی ادارہ ہے جو یورالوجی اور ٹرانسپلانٹیشن خصوصاً گردے کی پیوندکاری میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1974 میں ایک سرکاری ہسپتال کے اندر 12 بستروں والے وارڈ سے شروع ہونے والا سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کا ادارہ اب 2000 بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال بن چکا ہے جس میں کئی یونٹ ہیں۔
صرف 2024 میں یہاں 42 لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں چھ لاکھ سے زائد آؤٹ پیشنٹ وزٹس اور پانچ لاکھ سے زیادہ ڈائیلاسز سیشن شامل تھے۔
بچوں کے گردے کے امراض کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر نے بتایا کہ ہسپتال کے آؤٹ پیشنٹ کلینک میں ہفتے کے چار دن، روزانہ 300 سے 400 بچے دیکھے جاتے ہیں اور خاندانوں کو اکثر ڈاکٹر سے ملاقات کے لیے تین سے چار گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس دوران زینب کی دل نشین آواز ایک خوشگوار فضا پیدا کرتی ہے اور وہ بچوں کو ان کے پسندیدہ گانے سنا کر محظوظ کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’یوں تین چار گھنٹوں کا طویل انتظار بچوں کے لیے کچھ آسان ہو جاتا ہے۔‘
زینب کو امید ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں، یہاں گاتی رہیں گی۔
کی بورڈ پر انگلیاں چلانے سے پہلے انہوں نے بچوں سے کہا: ’ہمت نہ ہاریں۔ انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو بہادر اور مضبوط رہنا چاہیے اور اپنے دل میں بار بار دہرانا چاہیے کہ مجھے صحت یاب ہونا ہے۔‘