قربانی کے جانوروں کی کھالیں، اعضا، کوئٹہ میں عارضی ذریعہ معاش

عید الاضحیٰ کے جانوروں کی کھالیں اور آلائشیں کس طرح صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے باسیوں کا ذریعہ معاش بنتی ہیں، انہیں کس عمل سے گزارا جاتا ہے، جانیے انڈپینڈنٹ اردو کی اس رپورٹ میں۔

عید الاضحیٰ پر پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی مقامی منڈیوں میں بھی ایک نئی سرگرمی جنم لیتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کوئٹہ کے گلی محلوں سے لے کر صوبے کے دور دراز علاقوں، حتیٰ کہ افغانستان کے قندھار تک سے ہزاروں جانوروں کی کھالیں کوئٹہ کی مارکیٹ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔

 ایک اندازے کے مطابق ہر سال عید الاضحیٰ کے بعد کوئٹہ میں 90 ہزار سے ایک لاکھ تک جانوروں کی کھالیں جمع ہوتی ہیں۔

ان کھالوں کو ایک خاص طریقے سے نمک لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ یہ کھالیں بعد ازاں جوتے، بیلٹ، لیڈیز بیگز اور دیگر اشیاء میں ڈھل جاتی ہیں۔

مقامی مارکیٹ کی قیمتیں: قربانی کے بعد کی معیشت

 کوئٹہ کے کھالوں کے بازار میں موجود عبدالودود پچھلے آٹھ سال سے اس کام سے وابستہ ہیں، ودود نہ صرف کھالیں جمع کرتے ہیں بلکہ جانور کے اندر موجود وہ قیمتی اعضا بھی نکالتے ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو کھالوں سے کم نہیں۔

عبدالودود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس وقت کوئٹہ کی مقامی مارکیٹ میں ایک چھوٹے اور مناسب جانور کی کھال دو سو روپے تک فروخت ہو رہی ہے، جبکہ بڑے جانور کی کھال ایک ہزار روپے تک بک رہی ہے۔ اگرچہ یہ قیمتیں ماضی کی نسبت کم ہو چکی ہیں، لیکن اب بھی ہزاروں افراد ان کھالوں سے روزگار کماتے ہیں۔

’لوگ سمجھتے ہیں کہ بس کھال نکالی اور کام ختم، لیکن درحقیقت کام تو وہاں سے شروع ہوتا ہے۔‘

 ان کے مطابق، کھال کے ساتھ ساتھ تین چیزیں اور انتہائی اہمیت رکھتی ہیں: مٹوک، آنتیں اور اندرونی اعضا سے نکلنے والا تیل۔

 مٹوک: گائے اور بیل کی اوجھڑی کے ساتھ جڑا عضو

عبدالودود کہتے ہیں: ’مٹوک گائے یا بیل کے پیٹ میں اوجھڑی کے ساتھ لگا ایک چھوٹا سا عضو ہوتا ہے، یہ اتنا نازک ہے کہ قربانی کے چند گھنٹوں بعد ہی خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمیں فوراً یہ نکال کر صاف کرنا ہوتا ہے اور پھر اس میں نمک بھر دیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مٹوک کی قیمت 300 سے 600 روپے کے درمیان ہوتی ہے۔عید کے دنوں میں یہ بہت تیزی سے بکتا ہے، اور محنت کا پھل فوری ملتا ہے۔

’یہ عضو زیادہ تر چین برآمد کیا جاتا ہے۔ وہاں اس سے ایک خاص قسم کا سوپ تیار کیا جاتا ہے جسے طاقت بخش غذا سمجھا جاتا ہے۔‘

 آنتیں: پرانے طریقے، نئی مارکیٹ

عبدالودود کے مطابق بکروں اور دنبوں کی چھوٹی آنتوں کو ضائع نہیں کیا جاتا۔

’ہم ان آنتوں کو مکمل طور پر صاف کرتے ہیں، اندر سے دھوتے ہیں اور نمک لگا کر سُکھاتے ہیں۔ یہ آگے جا کر زیادہ تر خوراک محفوظ کرنے، خاص طور پر ساسیجز وغیرہ بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہ کام بہت وقت لیتا ہے لیکن مزدور طبقے کے لیے کمائی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔‘

 اندرونی اعضا کا تیل اور صابن بنانے کے لیے استعمال

قربانی کے جانور کے پیٹ سے بچ جانے والے دیگر اندرونی اعضا، جنہیں عام طور پر کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے، عبدالودود اور ان جیسے کاریگر انہیں بھی ایک جگہ جمع کر کے ان سے تیل نکالتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’یہ تیل زیادہ تر صابن بنانے والی فیکٹریوں میں جاتا ہے۔ ایک جانور سے تھوڑا تیل نکلتا ہے، لیکن جب ہزاروں جانوروں سے جمع ہو جائے تو یہ قیمتی سامان بن جاتا ہے۔‘

’ان چیزوں سے کماتے ہیں جنہیں لوگ بے کار سمجھتے ہیں‘

بہت سے محنت کشوں کی روزی روٹی عید الاضحیٰ پر جمع ہونے والی کھالوں پر نمک لگانے سے جڑی ہوتی ہے۔

عبدالودود کے مطابق: ’ایک کھال پر نمک لگانے کی مزدوری 40 روپے تک لی جاتی ہے۔

’یہ کوئی آسان کام نہیں، ہمیں جلدی کرنی ہوتی ہے تاکہ کھال خراب نہ ہو۔ دھوپ میں کام کرنا، بدبو، اور مسلسل جھک کر کام کرنا آسان نہیں ہوتا، لیکن یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم ان چیزوں سے کماتے ہیں جنہیں لوگ بے کار سمجھتے ہیں۔‘

 عبدالودود نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عید کے بعد ان کا دن صبح سات بجے شروع ہوتا ہے اور رات گئے تک ختم نہیں ہوتا۔

’یہ دن ہمارے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، اگر ایک موقع نکل جائے تو سارا سال پچھتاوا رہتا ہے۔‘

اس خاموش صنعت سے جڑے افراد نہ صرف روزگار پیدا کر رہے ہیں بلکہ ملکی برآمدات میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے نہ ان کے لیے کوئی سرکاری تربیتی ادارہ ہے، نہ سرمایہ کاری، اور نہ ہی صحت و صفائی کی سہولیات۔

عبدالودود نے کہا کہ ’اگر حکومت ہمیں تھوڑی سی توجہ دے، کام کرنے کی جگہ صاف ہو، مشینیں ہوں تو ہم اس سے تین گنا زیادہ کما سکتے ہیں اور ملک کو بھی فائدہ ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات