پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک کے نظام حکومت کو ’ہائبرڈ ماڈل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نظام ’بہترین‘ کام کر رہا ہے جس میں فوجی اور سویلین قیادت مل کر اقتدار میں شریک ہیں۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے کہا ’یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے۔ یہ مثالی جمہوری حکومت نہیں۔ تو یہ انتظام، ہائبرڈ انتظام، میرے خیال میں کمال کر رہا ہے۔‘
پاکستان کا موجودہ حکومتی ڈھانچہ سیاسی حلقوں میں ایک کھلا راز ہے، لیکن کسی موجودہ عہدے دار کی طرف سے اس کا یوں اعتراف کم ہی سامنے آتا ہے۔
خاص طور پر ایسے وقت میں جب فیلڈ مارشل اور چیف آف آرمی سٹاف عاصم منیر امریکہ کے دورے پر تنہا گئے ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی ملاقات ہوئی ہو۔
حکام نے عاصم منیر کے دورے کو واشنگٹن کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کے طور پر پیش کیا ہے۔
خاص طور پر گذشتہ ماہ انڈیا کے ساتھ فوجی کشیدگی اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں۔
لیکن آرمی چیف کی صدر ٹرمپ سے ملاقات نے اس بات پر دوبارہ توجہ مبذول کرائی ہے کہ اسلام آباد کس قدر اپنی فوج پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اہم خارجہ تعلقات، معاشی روابط اور حساس علاقائی معاملات سنبھالے ہوئے ہے۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ہمراہ پاکستان کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ موجود نہیں تھے، البتہ وزیر داخلہ محسن نقوی اس دورے پر ہمراہ تھے۔
آرمی چیف کا دورہ پاکستان اور انڈیا جیسی جوہری قوتوں کے درمیان حالیہ برسوں کے سب سے سنگین تصادم کے فوراً بعد ہوا ہے، جس میں دونوں نے ڈرون، میزائلوں کے تبادلے اور توپ خانے کا استعمال کیا، یہاں تک کہ 10 مئی کو واشنگٹن کی ثالثی سے فائر بندی ہوئی۔
پاکستان نے اس محاذ آرائی میں فتح کا اعلان کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے انڈیا کے چھ لڑاکا طیارے مار گرائے اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
اس بحران کے دوران عاصم منیر کے کلیدی کردار نے انہیں فیلڈ مارشل کے اعلی ترین فوجی عہدے پر ترقی اور عوامی حمایت دلوائی جس سے فوج کی حیثیت پاکستان کے سب سے بااثر اداروں میں سے ایک کے طور پر مزید مضبوط ہوئی۔
رواں ہفتے ایک انٹرویو میں جب پاکستانی آرمی چیف امریکہ میں ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے گئے ہوئے تھے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے تسلیم کیا کہ انڈیا کے ساتھ تنازعے کے بعد فوج کی عزت ’آسمان چھو رہی ہے‘۔
انہوں نے اسے ’پوشیدہ نعمت‘ قرار دیا، لیکن اس بات کو مسترد کیا کہ اس سے جمہوری عمل داری کمزور ہوگی یا فوج کو بے لگام کنٹرول مل جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کی براہ راست اور بالواسطہ فوجی حکمرانی کی تاریخ انہیں فوج کی مضبوط شبیہ سے پریشان کرتی ہے تو انہوں نے کہا ’نہیں، مجھے اس کی فکر نہیں‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’یہ ایک ہائبرڈ ماڈل ہے۔ یہ مثالی جمہوری حکومت نہیں۔ یہ انتظام، ہائبرڈ انتظام، میرے خیال میں کمال کر رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ یہ نظام اس وقت تک عملی ضرورت ہے جب تک پاکستان ’معاشی اور طرز حکمرانی جیسے مسائل سے باہر نہیں نکل جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ماضی کے سیاسی عدم استحکام اور پس پردہ فوجی اثر و رسوخ نے جمہوری ترقی کو سست کر دیا تھا، لیکن موجودہ انتظام نے ہم آہنگی کو بہتر بنایا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر اسی قسم کا [ہائبرڈ] ماڈل 90 کی دہائی میں اپنایا گیا ہوتا تو حالات بہت بہتر ہوتے، کیونکہ [فوجی] اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان محاذ آرائی نے ہماری جمہوریت کی ترقی کو دراصل پیچھے دھکیل دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس موجودہ ’ڈی فیکٹو‘ ہائبرڈ انتظام نے فوج اور منتخب رہنماؤں کو مشترکہ پلیٹ فارم جیسے سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) پر اکٹھا کر دیا ہے، جو ایک سول ملٹری ادارہ ہے، جو معاشی ترجیحات کا تعین و انتظام مشترکہ طور پر کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور تجارتی اصلاحات کی نگرانی کرتا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمارے پاس مشترکہ پلیٹ فارمز ہیں، جیسے (ایس آئی ایف سی) اور دیگر پلیٹ فارمز، جہاں فوجی اور سویلین قیادت اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ تو یہ ایک ڈی فیکٹو انتظام ہے اور یہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔‘
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
مکمل اتفاق رائے
خواجہ آصف کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اہم فیصلے خود لیتے ہیں۔ ’یہ کچھ باہمی طور پر ہے، ہمارے پاس طاقت کے ڈھانچے کی مشترکہ ملکیت ہے۔۔۔۔
’شہباز شریف پر کوئی مسلط کردہ نظام یا ادارہ نہیں ہے جو انہیں ہدایت دے اور وہ اس کے مطابق عمل کریں ... [وہ] اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ ہر سطح پر اسٹیبلشمنٹ سے باقاعدہ مشاورت کرتے ہیں۔‘
لیکن کیا کبھی ایسا ’بحران کا لمحہ‘ آیا جب وزیر اعظم آرمی چیف پر فیصلہ سازی میں غالب نہ آئے ہوں؟
خواجہ نے جواب دیا: ’یقین کریں، بالکل ایمانداری سے، ہمارے درمیان کبھی ایسا لمحہ نہیں آیا جب فیصلے متفقہ طور پر نہ ہوئے ہوں۔ معاملات بہت ہموار چل رہے ہیں۔ اور انشااللہ، ایک دن ہم اپنے ملک کے لیے درکار اس قسم کی جمہوریت حاصل کر لیں گے۔‘