وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جمعرات کو پاکستانی میڈیا کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے عسکریت پسندوں کو مبینہ طور پر افغانستان سے لا کر پاکستان میں بسانے سے متعلق سوال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ر) فیض حمید تو گرفتار ہیں لیکن جنرل باجوہ سے تو پوچھا جا سکتا ہے۔‘
ایک صحافی نے اس موقعے پر کہا کہ ’پوچھنا تو حکومت کا کام ہے‘، جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ’آپ کیسا میڈیا ہیں، اگر آپ سوال نہیں پوچھ سکتے۔‘
انہوں نے پاکستانی صحافیوں کو مشورہ دیا کہ وہ جنرل باجوہ سے ضرور اس متعلق دریافت کریں۔
خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ کیا مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کو افغانستان سے لا کر پاکستان میں بسانے میں جنرل باجوہ کا کردار تھا؟
جس پر انہوں نے جواب دیا: ’بالکل جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان کے مشترکہ مفادات کا سمجھوتہ تھا۔ یہ لوگ (دہشت گرد) انہوں نے لا کر بسائے ہیں۔ ان تینوں نے لا کر بسائے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسمبلی کی کارروائی نکلوائیں۔ میں اس اجلاس میں موجود تھا۔ پورا ہاؤس تھا۔ اس میں انہوں (عمران خان اور پی ٹی آئی والوں) نے کہا تھا کہ ہم بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی ان سے۔ فیض صاحب اگر اندر ہیں تو باجوہ صاحب تو باہر ہیں، ان سے پوچھیں۔‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے، جسے مل کر حل کرنا ہو گا۔ دہشت گردی روکنے میں ناکامی جانچنے کے لیے پہلے خیبرپختونخوا حکومت کی انکوائری ہونی چاہیے۔‘
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھنے سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’پہلے خطوط بازی پاکستان میں ہوتی تھی، اب اسے بین الاقوامی درجہ دے دیا گیا ہے۔ پہلے جو خطوط کا حشر ہوا تھا، ان خطوط کا بھی وہی حشر ہو گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’میں کسی کو مشورہ نہیں دیتا۔ وہ مشورے سے بہت بالاتر ہیں، ان لوگوں کو جادو منتر کے مشورے ہو سکتے ہیں۔ کوئی اور بات نہیں ہو سکتی۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست وہاں ہوتی ہے جہاں دوسرا فریق حملہ آور نہ ہو، میں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی یا ان کی طرف سے بات نہیں کر رہا، اگر مفاہمت نہیں ہو رہی تو پھر آپ کو مزاحمت کی سیاست کرنی چاہیے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کی ذمہ داری خیبر پختونخوا حکومت بھی تو اٹھائے، خیبر پختونخوا بانی پی ٹی آئی کے اقتدار کی جنگ لڑ رہا ہے، صوبائی حکومت دہشت گردی کے خلاف کچھ نہیں کر رہی۔‘
ملک میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کو واپس بسانے میں جنرل باجوہ کا بھی کردار تھا، جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور بانی پی ٹی آئی نے دہشتگردوں کو پاکستان میں واپس بسایا۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’فیض حمید تو گرفتار ہیں، جنرل باجوہ سے تو پوچھا جائے کہ انہوں نے ان دہشت گردوں کو کیوں بسایا۔‘
مسلم لیگ ن کی حکومت خاص کر سینیئر رہنما خواجہ آصف اس سے قبل بھی یہ بات کر چکے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں طالبان کو لا کر ملک میں بسایا گیا۔
جون 2024 میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا: ’تب طالبان کو واپس لا کر انہیں ایمنسٹی دی گئی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بریفنگ دی، اس وقت عمران خان کی حکومت تھی۔ یہ بریفنگ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دلوائی۔ اس کے بعد جتنے افراد افغانستان سے پاکستان آئے، انہیں یہ لوگ یہاں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں اور ان کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں۔‘