جنرل باجوہ کے چھ سالہ دور سے جڑے تنازعات اور چیلنجز

چھ سال قبل پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار کی اہم ترین ذمہ داری جن حالات میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپی گئی تھی، آج صورت حال اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اس سے بہت مختلف ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں پاکستانی فوج کے سولہویں سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

 پاکستانی فوج کا ایک اور دور 29 نومبر 2022 کو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ چھ سال قبل پاکستان کی بری فوج کے سپہ سالار کی اہم ترین ذمہ داری جن حالات میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپی گئی تھی، آج صورت حال اندرونی اور بیرونی محاذوں پر اس سے بہت مختلف ہے۔

نئے فوجی سربراہ کے لیے جنرل باجوہ کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں، آئیں اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں پاکستانی فوج کے سولہویں سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور ان کی تین سالہ مدت جب مکمل ہونے جا رہی تھی تو سیاسی و قانونی ہیجان کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے علاقائی سکیورٹی حالات کو وجہ بتاتے ہوئے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی مزید توسیع کر دی تھی۔

توسیع اور اس عمل کے لیے غیر معمولی قانونی سازی پر ایاز امیر جیسے عمران خان کے حامی تجزیہ کار بھی کڑی تنقید کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے لیے نہ صرف ایسی قانون سازی کروائی جس کا ماضی میں کوئی وجود نہیں تھا بلکہ اس کو عدالتی حکم کے تحت باضابطہ شکل دے کر اس سارے عمل کو تحفظ بھی دیا۔

وہ ایسے پہلے فوجی سربراہ ہیں جن کے چھ سالہ دور میں دو وزرائے اعظم کو اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونا پڑا۔ پہلے نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اور پھر عمران خان عدم اعتماد کے ووٹ کے ہاتھوں عہدوں پر برقرار نہ رہے۔

چیلنج کیا تھے؟ 

11 نومبر 1960 کو کراچی میں پیدا ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو ملک کو کئی سنگین مسائل درپیش تھے۔

ملک کو شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ سے نکالنے کا مشکل ٹاسک انہوں نے کسی حد تک جاری رکھا، افغانستان میں ایک بڑی تبدیلی گذشتہ برس ان کے دور میں سامنے آئی، انڈیا کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور بلوچستان کا قدرے دائمی مسئلہ بھی انہیں مصروف رکھنے کے لیے کافی تھا۔  

جنرل باجوہ کو چھ سال کے دوران ملک کی تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کبھی دبے الفاظ اور کبھی کھلے عام تنقید کا سامنے رہا۔

پہلے تین سال کے دوران جنرل باجوہ کو 2018 کے متنازع انتخابات میں مبینہ کردار پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے آڑے ہاتھ لیا لیکن بعدازاں ان کی مدت ملازمت کے آخری سال اس سیاسی شخصیت کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا جن کے ساتھ کئی برسوں تک وہ ’ایک پیج‘ پر رہے۔  

سال 2022 شاید ان کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا جب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور ان کی ذات پر کھل کر تنقید ہوئی۔ 

ویسے تو پہلے دن سے سیاسی تنازعات نے انہیں گھیرے رکھا لیکن شاید یہ پاکستانی فوج کی تاریخ میں ایسا غیرمعمولی واقعہ تھا جس سے نمٹنے اور اپنے دفاع کے لیے انہیں حساس ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کو ایک پریس کانفرنس میں سامنے لانا پڑا۔  

حکومت اور ملٹری کے درمیان چار سال تک ’ون پیج‘ کا بیانیہ 2022 کے مارچ میں عمران حکومت کے خاتمے سے چند ماہ قبل ختم ہو گیا، لیکن جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ فوج نے گذشتہ برس فروری میں سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس اہم فیصلے کی اس وقت وجوہات کیا تھیں، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا۔    

بعض تجزیہ نگاروں کے بقول ان کے دور میں دو وزیراعظم چلتے بنے۔ ایک نواز شریف بدعنوانی کے نام پر اور دوسرے عمران خان غالباً طرز حکمرانی کی وجہ سے۔  

آپریشن رد الفساد  

دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ایک کا چارج سنبھالتے ہی جنرل قمر جاوید باجوہ نے برسوں سے جاری شدت پسندی کی لہر کے خلاف ردالفساد کے نام سے کارروائی کا آغاز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فوج کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد پائیدار امن کی بحالی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ تھا۔ نئے آپریشن کے دوران بڑی بڑی فوجی کارروائیوں کی بجائے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائیوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔  

اس حکمت عملی سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسری شدت پسند تنظیمیں کافی کمزور ہوئیں اور ان کی حملے کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر پڑا لیکن یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہ ہوسکا۔

جب جنرل باجوہ اپنی کمان کی چھڑی نئے سربراہ کے حوالے کریں گے تو ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کار محدود سطح پر پھر بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ رواں برس مذاکرات اور محدود مدت کے لیے جنگ بندی بھی ہوئی لیکن یہ سلسہ کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ پایا۔  

ردالفساد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے 20 نکاتی قومی ایکشن پلان کا حصہ تھا، جو فروری 2021 میں اختتام کو پہنچا۔ ان کے دور میں یہ بھی واضح نہیں کہ اس قومی ایکشن پلان پر کس حد تک عمل درآمد ہوا اور کتنی تشنگی باقی رہی۔  

پاک افغان سرحد پر باڑ  

آپریشن ردالفساد کے تحت 26 سو کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر 90 فیصد باڑ لگانے کا کام مکمل ہوا۔ فوجی حکام کے مطابق اس سے امن عامہ کی صورت حال میں بہتری لانے میں مدد ملی لیکن اس سرحدی باڑ نے سرحد کے آرپار عام قبائلیوں کی آمدو رفت اور خاندانی رسم و رواج کو کسی حد تک متاثر بھی کیا۔

اس باڑ کے ساتھ ایک ہزار پوسٹیں یا قلعے بھی قائم کیے گئے ہیں۔ اس منصوبہ پر پاکستان کو 50 کروڑ امریکی ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کرنا پڑی۔  

باجوہ ڈاکٹرائن  

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نے 2018 میں 54 ویں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں جنرل باجوہ کے ریمارکس کے بعد ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی اصطلاح پیش کی تھی، جس میں پاکستان کے لیے ان کی سوچ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔

اس وقت فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے باجوہ ڈاکٹرائن کی تصدیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور خطے میں امن اور سلامتی کی بحالی کے لیے یہ نہ صرف ایک نقشے کے طور پر کام کرے گا بلکہ ملک کے پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا۔ ان کے دور کے آخری ایام میں اس ڈاکٹرائن کا کوئی زیادہ ذکر نہیں ہوا۔  

انڈیا کے ساتھ تعلقات  

پاکستان کے سب سے اہم ہمسایہ ملک انڈیا کے ساتھ جنرل باجوہ کے دور میں تعلقات کی بہتری کے لیے ماسوائے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے کوئی زیادہ قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔

فروری 2019 میں تو دونوں ملک جنگ کے دھانے کے انتہائی قریب پہنچ گئے جب پاکستان نے انڈین جیٹ طیارہ مار گرا کر پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا اور چائے سے تواضع کی، لیکن نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت اسی سال اگست میں ختم کرکے بہتری کی کوششوں کو شدید ضرب لگائی۔  

تاہم کئی لوگوں خصوصاً کشمیریوں کے مطابق حکومت پاکستان کا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے پر ردعمل کوئی جان دار نہ تھا۔ جمعے کے جمعے احتجاج کا سیاسی سلسلہ زیادہ آگے نہیں بڑھا جبکہ پاکستان کی انڈین کشمیر میں مداخلت کے الزامات بھی ماند رہے۔    

افغانستان  

یہ جنرل باجوہ کے دور میں ہی ممکن ہوا کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں ایک امن معاہدہ ہوا، جس نے اس مغربی سرحد پر واقعے ملک سے امریکی فوجی انخلا اور اس کے نتیجے میں ایسے حالات پیدا کیے کہ اشرف غنی کی حکومت چند دنوں میں چلتی بنی۔

اب وہاں طالبان کی حکومت قائم ہے لیکن عالمی سطح پر اسے تسلیم کرنے کے کوئی اشارے نہیں۔ پاکستان افغانستان کے نئے حکمرانوں سے ’انگیجمنٹ‘ کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ باضابطہ حکومت کے فارملائز ہونے میں مدد نہیں دے رہا۔

جنرل باجوہ نے ایک بیان میں طالبان کے بارے میں پالیسی ابتدا میں واضح کر دی تھی کہ اگر طالبان قیادت یہ سمجھ رہی ہے کہ پاکستان ان کو ماضی کی طرح آنکھیں بند کرکے فوراً تسلیم کر لے گا تو ان کو یہ سوچ ترک کرنی پڑے گی۔  

طالبان نے بھی خواتین کے حقوق سمیت بعض معاملات پر کوئی لچک نہیں دکھائی ہے۔ یہ نامکمل ایجنڈا جنرل باجوہ اب نئے فوجی سربراہ کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں۔   

کیریئر

جنرل باجوہ کا کیریئر ایک پیشہ ور فوجی کی حیثیت سے ان کے اور ان کے ادارے کے لیے قابل فخر ہے۔ وہ 1980 میں پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ کی 16 ویں بٹالین میں سیکنڈ لیفٹننٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔

اپنے 40 سالہ کیریئر میں انہوں نے کور کمانڈر راولپنڈی (اگست 2013 سے سمتبر 2015 تک) جیسے انتہائی اہم عہدے پر فرائض سرانجام دیئے۔ فوج کے اندر پنڈی کی دسویں کور سب سے زیادہ اہم مانی جاتی ہے۔ اس کور کی ذمہ داری میں انڈیا کے ساتھ لائن آف کنٹرول کی نگرانی شامل ہے۔   

اس کے علاوہ جنرل باجوہ کوئٹہ سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹکس کے کمانڈنٹ اور کانگو میں اقوام متحدہ کے مشن میں ایک بریگیڈیئر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان