جنرل باجوہ نے ایک بیان میں طالبان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی واضح کر دی ہے۔ ان کے بیان کا لبِ لباب یہ ہے اگر طالبان کی قیادت یہ سمجھ رہی ہے کہ پاکستان ان کو جوں کا توں مان لے گا اور وہ اپنی فتح کو چاہے جس انداز سے بھی استعمال کریں اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھائے گا تو ان کو یہ سوچ ترک کرنی پڑے گی۔
جنرل باجوہ کے پیغام کو آپ دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں وہ دنیا اور طالبان دونوں کو اشارے دے رہے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے تو وہ وہی محاورہ استعمال کر رہے ہیں جس محاورے میں طاقت کے بین لاقوامی مراکز طالبان کے سامنے اپنا مطالبہ رکھ رہے ہیں: خواتین کے لیے یکساں مواقع، اقلیتی نمائندگان کا تحفظ، خونریزی سے پرہیز، منشیات کا خاتمہ، اسلحے کی اسمگلنگ کی روک تھام [ویسے اگر سوچا جائے تو یہ سب کام پاکستان میں بھی کرنے کی اشد ضرورت ہے]
کہنے کو تو طالبان نے اپنے لیے یہ معیار خود مقرر کر دیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں طالبان نے یہ تمام وعدے وفا کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مگر دنیا ریکارڈ دیکھنا چاہتی ہے۔ اعمال اور ان کے پیچھے نیت اور پھر دونوں کا اظہار۔ پاکستان دنیا کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔
ہمارے پالیسی ساز اداروں نے پچھلے تجربے سے یہ سیکھ لیا ہے کہ طالبان سے خصوصی محبت اور اس پر بنیاد کرتے ہوئے سفارت کاری کتنے بڑے جنجال کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کو وہ دن یاد ہوں گے جب نائن الیون کے بعد طالبان کی دنیا کے ساتھ ان بن ہوئی تو اس کی سب سے بھاری قیمت افغانستان کے علاوہ پاکستان کو اٹھانا پڑی۔ وہی طالبان جو پاکستان میں ہر جگہ خصوصی شہریوں کی طرح گھوما پھرا کرتے تھے ان پر زمین تنگ کرنا پڑی۔ ان کے سفیر کے ہاتھ پائوں باندھ کر گوانتاموبے بھیجنا پڑا۔ جن کے بت تراشنے تھے انہی پر سنگ باری کرنی پڑی۔ جو دوست تھے وہ دشمن ٹھہرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایک بہت بڑا پالیسی دھچکہ تھا۔ 2021 میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ایسی محبتیں نہیں پالنا چاہتی جس کی سزا کاٹنی پڑے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین کے بیان کے مطابق پچھلی مرتبہ طالبان کو ایک قانونی حکومت کے طور پر ماننے کا قدم اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی مرضی اور اجازت کے بغیر لیا گیا تھا۔ یعنی جوش کا ایسا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر تھا جو بے قابو ہوا جا رہا تھا۔ مگر آج ہوش کے ناخن لیے جا رہے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔
پاکستان اپنی نئی پالیسی طالبان مخالف قائدین کے سر پر ہاتھ رکھ کر بھی واضح کر رہا ہے۔ پہلے شمالی اتحاد طالبان کا مخالف بھی تھا اور پاکستان کے ساتھ بھی اس کے بدترین تعلقات تھے۔ اس مرتبہ طالبان کابل اور شمالی اتحاد کے نمائندے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ یہ ایک سرتوڑ کوشش ہے تاکہ دنیا کل پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگا کر ہمیں ان کے ساتھ نتھی نہ کر دے۔
جنرل باجوہ طالبان کو باہمی تعلقات کے حوالے سے بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاملہ صرف دنیا کے ساتھ قدم اور آواز ملا کر چلنے کا نہیں ہے۔ پاکستان کی اپنی توقعات بھی کم اہمیت کی حامل نہیں۔
سب سے بڑا مطالبہ تو کالعدم تحریک طالبان کی افغانستان میں موجود جڑوں کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکنا ہے۔ طالبان کے دور میں یہاں سے بھاگنے والے دہشت گرد اور مطلوب افراد کسی نہ کسی بہانے وہاں پر موجود رہے۔ اس مرتبہ اس طرح کے گروپ پاکستان میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بدترین کارروائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
طالبان سے پہلے ہم یہ تمام الزامات ہندوستانی اور افغانستان کی انٹیلی جنس کی سرپرستی اور گٹھ جوڑ کے سر ڈال دیتے تھے۔ اب نہ را ہے نہ این ڈی ایس۔ اب صرف طالبان حاکم ہیں۔ پاکستان ٹی ٹی پی کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ یہی مطالبہ علیحدگی پسندوں کے بارے میں بھی ہے۔ ان کی کارروائیاں بھی مکمل طور پر ختم ہو جانی چاہییں۔ منشیات اور سمگلنگ بھی باہمی تعلقات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر ان کو نہ روکا گیا یا ان کے کاروبار میں اضافہ ہوا تو باہمی تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ سرحد کی حد کو تسلیم کرنا، طالبان کو آزادی سے آنے جانے کی عادت سی ہو گئی ہے، اس کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ ہی وہاں سے آئے ہوئے مہاجرین کو پاکستان اپنے درمیان بین الاقوامی مدد کے بغیر رہنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ یہ سب کچھ طالبان کو کرنا ہو گا۔
پاکستان کی توقع اور مطالبہ یہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان اہداف کے حصول کے لیے، وسائل، تنظیم اور مفاہمت چاہیے۔ طالبان کے پاس اسلحے کے انبار تو آئے ہیں مگر جیبیں خالی ہیں۔ بجلی، تیل، تنخواہیں اور ریاستی نظام کو چلانے کے وسائل فی الحال مغرب کے ہاتھ میں ہیں۔ طالبان کے نیچے افغانستان بری طرح بٹا ہوا ہے۔ ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہوا کہ افغانستان کا جھںڈا سہ رنگا ہے یا طالبان والا۔ اگر طالبان یہ سب کچھ نہ کر پائے تو پھر کیا ہو گا؟
فی الحال اسلام آباد اور پنڈی اس امکان کے بارے میں سوچنے سے ہی گریزاں ہیں۔