طالبان کی منشیات پر ممکنہ پابندی دنیا کے لیے تباہ کن کیوں؟

2000 کی دہائی کے اوائل میں افیون پر طالبان کی پابندی سے ایستونیا میں ہیروئن کا قحط پڑ گیا جس نے منشیات فروش مافیا کو زیادہ خطرناک فینٹینیل تیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

2001 میں ٹونی بلئیر نے کہا کہ طالبان کو اقتدار سے اتار پھینکنے کے لیے عسکری دستے بھیجنے کی ایک بنیادی وجہ برطانوی ساحلوں پر افغان ہیروئن کی رسائی روکنا تھا( اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے کے اختتامی دنوں سقوط کابل کے دنیا بھر سے توجہ حاصل کرنے والے مناظر کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں فیس بک سے نکالے جانے کی شکایت کی ساتھ (طالبان کو ان کے شدت پسند نظریات کی وجہ سے معطل کیا گیا؟ کوئی ذرا ٹوبی ینگ کو تو بلانا!) انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان منشیات سے پاک ملک بننے کے راستے پر گامزن تھا۔

انہوں نے کہا ’یہاں منشیات کی کاشت ہو گی نہ دوسرے ممالک میں غیر قانونی طریقے سے بھیجی جائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے نوجوان نشے کی حالت میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہیں۔

اپنے نوجوانوں کی اس عادت کا مجھے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ اب سے افغانستان افیون کی کاشت نہیں کرے گا، ہم افیون کی کاشت کا مکمل خاتمہ کر دیں گے۔‘

ذبیح اللہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں افیون کی کاشت پر طالبان کی جس پابندی کی طرف اشارہ کر رہے تھے بظاہر وہ منشیات کے خلاف کامیاب ترین مہمات میں سے ایک ہے۔

اس دوران پوست (وہ پودا جس سے افیون نکالی جاتی ہے) کی کاشت کا رقبہ بیاسی ہزار ہیکٹرز سے کم ہو کر محض آٹھ ہزار ہیکٹرز رہ گیا (جو زیادہ تر مخالف جنگجو سرداروں کے زیر تسلط تھا)۔

ان پودوں سے حاصل کردہ افیون بہتر بنائی جاتی اور پہلے مورفین پھر ہیروئن میں تبدیل کی جاتی۔

1979 میں روس کے افغانستان پر حملے کے وقت جب امریکہ اور پاکستانی ایجنسیوں کی پشت پناہی سے جنگجو مجاہدین نے غاصبوں کے خلاف لڑنے کے لیے منشیات سے مدد لی تب سے افغانستان ہیروئن کا مرکز بن گیا۔

2001 میں امریکی حملے کے بعد سے طالبان مخالف اور حامی دونوں دھڑوں نے پوست کی فصلوں کی حفاظت کی اور غریب پہاڑی ملک اب دنیا کی کل ہیروئن کا 80 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے جو یورپ، افریقہ، وسط ایشیا اور ایشیا کے دیگر ممالک میں (امریکہ کی مارکیٹ میں یہ زیادہ تر میکسیکو مہیا کرتا ہے) بسنے والے نشے کے عادی لوگوں کی ضرورت پوری کرتا ہے۔

اِس بار کی طرح تب بھی افیون پر پابندی کے ذریعے طالبان خود کو دنیا کی نظروں میں قابل قبول بنانا چاہتے تھے کہ جیسے وہ محض داڑھیوں والے بدسلیقہ جہادی نہیں بلکہ اس زمین کے جائز حکمران ہیں، لیکن پچھلی بار جب انہوں نے ایسا کیا تب یہ قدم معاشی خود کشی ثابت ہوا۔

کسانوں اور سمگلروں سے لے کر طالبان کے اپنے عائد کردہ ٹیکسوں تک معیشت اس قدر افیون پر منحصر تھی کہ یوں عملی طور پر انہوں نے خود اپنی جڑیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے اتحادی محض ایک ماہ اور چند دن بعد ملک پر قابض ہو گئے۔

کسی حد تک برطانوی اور امریکیوں نے بھی یہی غلطیاں دہرائیں۔ 2001 میں ٹونی بلئیر نے کہا کہ طالبان کو اقتدار سے اتار پھینکنے کے لیے عسکری دستے بھیجنے کی ایک بنیادی وجہ برطانوی ساحلوں پر افغان ہیروئن کی رسائی روکنا تھا۔

انسداد منشیات کے منصوبے پر بھیجے گئے وہ دستے کبھی مقامی آبادی کے دل میں جگہ نہ بنا سکے کیونکہ انہوں نے کسانوں کے واحد ذریعہ آمدن کو بری طرح تباہ کر ڈالا۔

یہ کہنے کے باوجود برطانوی اور امریکیوں نے طالبان کے خلاف اپنے منشیات فروش جنگجو سرداروں کی پشت پناہی کی اور مخصوص علاقوں میں افیون کی کاشت نظر انداز کی۔

گذشتہ چند برسوں میں نئی اختراعات دیکھنے کو ملیں کہ منشیات تیار کرنے والوں نے قدرتی طور پر اگنے والے ایفیڈرا پودے کے استعمال سے افیون اور کرسٹل میتھ بنانے کا نیا راستہ تلاش کیا جبکہ افیون کے کاشت کاروں نے شمسی توانائی سے کام چلاتے ہوئے کاربن کا استعمال کم کر دیا،(گریٹا ٹونبرگ خوش ہوں گی)۔

تو یہ خدشات کہ افغانستان منشیات کی آماج گاہ بن جائے بالکل بے بنیاد ہیں کیونکہ یہ پہلے سے ہے۔

یہ پیش نظر رکھتے ہوئے کہ مالی اعتبار سے افغانستان میں اہم ترین چیز افیون کی کاشت ہے جس کی قدر و قیمت اس کی قانونی برآمدات سے کہیں زیادہ اور اس کے اگانے والے کسانوں کا بنیادی ذریعہ معاش ہے طالبان کو اچھی طرح غور کرنا چاہیے کہ کیا واقعی وہ غریب دیہاتی کسانوں کو اپنا مخالف بنانا چاہتے ہیں جن کے فائدے کے لیے وہ ایسا کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔

تاہم فرض کیا طالبان اپنے دعوے کے مطابق عمل کرتے ہیں اور ہیروئن کے دھندے کو زبردستی ٹھپ کر دیتے ہیں۔ پھر کیا ہو گا؟

افغانستان میں افیون کی صنعت خود جزوی طور پر سوویت یونین کے حملے کے دوران سی آئی اے اور پاکستانی پشت پناہی سے چلنے والے مجاہدین کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے وجود میں آئی لیکن اس میں کس حد تک ترکی، ایران اور پاکستان میں اس کے خلاف سخت اقدامات کا بھی کردار ہے۔

1971 تک اناطولیہ کے پہاڑوں میں کسان اسے قانونی طور پر کاشت کرتے رہے جب امریکی حکومت نے ترکی پر دباؤ ڈال کر ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ مشرقی جانب ایران میں اس کی کاشت ہونے لگی یہاں تک کہ 1979 میں وہاں اسلامی انقلاب آ گیا۔

 پھر کچھ عرصے کے لیے افیون کے پودے افغان پاکستان سرحد پر پختون قبائل کے زیر انتظام غیر قانونی طور پر لہلہاتے رہے یہاں تک کہ وہاں بھی نوے کی دہائی کے وسط میں پاکستانی حکام نے اس کا خاتمہ کر دیا۔

یہی وہ چیز ہے جسے‘بیلون افیکٹ’ کہتے ہیں، اگر آپ ایک مقام پر منشیات کا دھندا ختم کریں تو یہ کسی اور جگہ سر اٹھانے لگتا ہے۔

کوکین کے معاملے میں لاطینی امریکہ میں یہی کچھ ہوا: پابلو ایسکو بار جیسے چوٹی کے مافیا اراکین کے زوال اور باغیوں کے زیر انتظام زمینوں پر حکومتی قبضے کے بعد کوکین کی کاشت کولمبیا سے پیرو منتقل ہو گئی جبکہ منشیات کی غیر قانونی تجارت پر اصل گرفت میکسیکنز کی رہی( جہاں منشیات فروشی کی جنگ عروج پر ہے)۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق منشیات کے استعمال سے مغربی یورپ میں سب سے زیادہ اموات برطانیہ میں ہوتی ہیں۔

محض گذشتہ ایک سال کے دوران مختلف منشیات کے زہر سے 4500 سے زائد برطانوی موت کے گھاٹ اتر گئے جو شمالی آئرلینڈ کے تیس سے زائد برسوں پر محیط تنازع میں مرنے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

محض انکار کام نہیں آیا۔ افیون کی کاشت افغانستان سے ختم ہو بھی جائے تو نشئی حضرات کو اپنی دوا چاہیے ہو گی۔

کہاں سے آئے گی یہ بات یقینی طور پر کہنا مشکل ہے لیکن میانمار (جو 1980 کی دہائی میں ہیروئن بنانے والا سب سے بڑا ملک تھا) میں ابھی فوجی بغاوت ہوئی جو دوبارہ اسے پرانی بری ڈگر پر دھکیل سکتی ہے جبکہ لبنان کی بیکا وادی سے یورپ سے نزدیک ہونے اور ہشیش کے ایک بڑے برآمد کنندہ ہونے (1980 کی دہائی میں ہیروئن کے بھی) کی حیثیت کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا منظر انتہائی بھیانک ہے۔ امریکہ میں اب فینٹینیل جڑ پکڑ رہا ہے۔ فینٹینیل مصنوعی طور پر تیار کردہ نشہ ہے جو ہیروئن سے کہیں زیادہ طاقتور ہے، جسے ویسے ہی یا ہیروئن کے ساتھ مکس کر کے بیچا جاتا ہے۔

کیوں کہ استعمال کرتے وقت گاہک اس کی طاقت سے آگاہ نہیں ہوتے اس لیے وہ جسم کی عادت سے زیادہ مقدار لے بیٹھتے ہیں جو نشے کی زیادتی کا بحران پیدا کر دیتی ہے۔

2019 کے دوران امریکہ میں (جو پہلے ہی منشیات کی بہت بڑی مصیبت کا شکار ہے) افیون سے ہونی والی کل اموات میں سے ایک تہائی فینٹینیل جیسی مصنوعی طور پر تیار کردہ منشیات سے تھیں۔

جب کہ دوسری طرف میکسیکو میں فینٹینیل کے تاجر افیون کاشت کرنے والے کسانوں کے کاروبار کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں کیوں کہ غیر قانونی تجارت کے نقطہ نظر سے فینٹینیل کو طویل سرسبز افیون کی فصلوں کی ضرورت نہیں (یہ تسلی سے کسی خفیہ لیب میں تیار کی جا سکتی ہے) اور اس کی زیادہ طاقت کا مطلب ہے اسے سمگل کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ آپ کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے اسے بہت بھاری مقدار میں ٹھونسنا نہیں پڑتا۔

2000 کی دہائی کے اوائل میں افیون پر طالبان کی پابندی سے ایستونیا میں ہیروئن کا قحط پڑ گیا جس نے منشیات فروش مافیا کو فینٹینیل تیار کرنے پر مجبور کر دیا جو اشیائے فروخت کی فہرست میں اب ہیروئن کا متبادل تھا۔

چھوٹے سے بالٹک ملک کے علاوہ یورپ کے بیشتر ممالک فینٹینیل کی مصیبت سے خود کو بچانے میں کامیاب رہے کیونکہ وہاں افغانی ہیروئن بھاری مقدار میں پہنچ رہی تھی۔ لیکن اگر یہ رسائی رک جاتی ہے تو کسی کے لیے متبادل تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

افغانستان کی صورت حال پیچیدہ ہے لیکن کم از کم ایک چیز واضح ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے منشیات کا کاروبار رکنے والا نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت