’انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر اور منشیات کا نشہ ایک برابر ‘

ایک ماہر سائیکولوجسٹ کے مطابق: 'جن لوگوں کو انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کی عادت ہے انہیں یہ عادت نارمل لگتی ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ انہیں انٹرنیٹ یا ویڈیو گیمز کی لت لگ چکی ہے اور وہ 8 سے 14 گھنٹے موبائل یا لیپ ٹاپ پر گزار رہے ہوتے ہیں۔'

غزہ میں نوجوان ایک پب جی ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہوئے (اے ایف پی)

گذشتہ دنوں لاہور میں دو مختلف واقعات میں سات روز کے اندر دو نوجوانوں نے ایک ہی وجہ سے اپنی جان لے لی۔

20 سالہ جونٹی جوزف اور 16 سالہ زکریا ویڈیو گیم 'پب جی' کھیلنے کے عادی تھے۔ دن رات کا فرق بھول چکے تھے۔ والدین نے جب انہیں 24 گھنٹے موبائل پر یہ گیم کھیلنے سے روکا تو دونوں نے خود کشی کر لی۔

سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کے مطابق پب جی کھیلنے والے نوجوانوں کی خودکشیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گیم ایک ڈیجیٹل نشے کی صورت اختیار کر رہی ہے اسی لیے لاہور پولیس نے پب جی گیم پر پابندی لگوانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے سائبر ونگ کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے جبکہ اس گیم کے نقصانات کے حوالے سے ماہرین کی رائے بھی لی جائے گی۔‘

کیا واقعی ویڈیو گیمز کا جنون جان لیوا ہو سکتا ہے؟

یہی جاننے کے لیے ہم نے 19 سالہ امیر عباس سے بات کی جو تین برس کی عمر سے ویڈیو گیمز کھیل رہے ہیں۔ امیر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس وقت پلے سٹیشن فور اور آن لائن بہت سے گیمز کھیلتے ہیں، جس کا دورانیہ ایک دن میں مسلسل آٹھ گھنٹے یا چار گھنٹے تک ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس وقت تک جب تک وہ گیم میں اپنا ہدف پورا نہ کر لیں۔

امیر عباس کہتے ہیں کہ ان گیمز میں بیشتر ایسے بھی ہیں، جن میں بہت خون خرابہ اور شدت پسندی اور تشدد شامل ہے۔ جبکہ کچھ ایسے ہیں جن سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان میں آپ وہ کچھ کرتے ہیں جو شاید آپ کی خواہش ہو مگر وہ آپ کر نہیں سکتے جیسے اگر آپ خلا باز بننا چاہتے ہیں  تو آپ گیم کے ذریعے اپنا خواب پورا کر سکتے ہیں۔

امیر عباس نے بتایا کہ انہوں نے  پب جی بھی کھیلی ہے، تاہم ان کے خیال میں ’پب جی کوئی خاص اچھی گیم نہیں ہے۔‘

امیر عباس کا کہنا ہے کہ اب تو بہت سے لوگ ان ویڈیو گیمز سے پیسے بھی کما رہے ہیں خاص طور پر یو ٹیوب پر پورا گیم کھیل کر دکھاتے ہیں اور ساتھ میں کمنٹری کرتے ہیں، ان کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور وہ یو ٹیوب کے ذریعے ہزاروں لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان گیمز میں بہت سے ایسے ہیں جنہیں جب آپ آن لائن کھیلتے ہیں تو وہ ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ بن جاتا ہے جس میں آپ دنیا بھر کے گیمرز کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں اور اس میں جب آپ کوئی لیول جیتتے ہیں اور اپنا ہدف حاصل کرلیتے ہیں تو اس جیت کا احساس ناقابل بیان ہے۔ اس کے علاوہ کچھ گیمنگ کلبز بھی ہیں جہاں مقامی گیمرز اور بین الاقوامی گیمرز کے ساتھ بھی مقابلے ہوتے ہیں اور اس میں اگر آپ گیم جیت جائیں تو آپ کو نقد انعام بھی ملتا ہے۔ ’میں بھی ایسے ایک دو مقابلوں میں گیا مگر جیت نہیں سکا۔‘

اگر والدین انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز کی سہولت واپس لے لیں تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟

اس سوال پر امیر عباس نے الٹا سوال کر ڈالا کہ ’کہیں یہ تو نہیں پوچھنا چاہ رہیں کہ میں بھی خود کشی کر لوں گا؟ تو میرا جواب ہے بالکل نہیں۔ ہاں میں بغاوت کروں گا، غصہ بھی لیکن اس کے باوجود اگر سہولت واپس نہ ملی تو میں خود کو مصروف رکھنے کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈوں گا لیکن کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے لیے کیا برا یا  اچھا ہے۔ ایک گیم کی خاطر میں اپنی جان نہیں لے سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ چند دن قبل پانچ روز کے لیے ان کے گھر کا انٹرنیٹ بند ہوگیا تھا، تو شروع میں انہیں شدید گھٹن کا احساس ہوا مگر پھر امی، ابو اور بھائی بہن کے ساتھ وقت گزارہ، کچھ کتابیں پڑھیں، مل کر کچھ بورڈ گیمز کھیلے تو وہ اچھا لگا۔

انہوں نے کہا: ’جتنی میں نے تحقیق کی ہے اس کے مطابق  دنیا بھر میں  ویڈیو گیمز کھیلنے اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے جبکہ اس کی وجہ سے اپنی جان لینے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور زیادہ تر کیسز میں ایسا کرنے والے پہلے سے نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔‘

کیا ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ بھی کسی نشے کی طرح آپ کو عادی بنا لیتا ہے؟

لاہور میں ہر قسم کا نشہ کرنے والوں کی بحالی کے لیے قائم ایک نجی ادارے ’برج‘ کے کلینیکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر سید ابوالحسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس سوال کا جواب ہاں میں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ برسوں پہلے ان کے پاس ایک مریضہ ایسی آئیں جو نفسیاتی طور پر بائے پولر ڈس آرڈر کا شکار تھیں۔ انہوں نے فیس بک پر سینکڑوں اکاؤنٹس بنائے ہوئے تھے اور ہر اکاؤنٹ پر ان کی مختلف آئی ڈی تھی اور وہ ہر اکاؤنٹ کو استعمال کرتی تھیں۔ وہ فیس بک پر موجود ہر قسم کے گروپ کی رکن تھیں اور ہر گروپ میں وہ اس گروپ کے مطابق رویہ اپناتی تھیں۔ ان کا علاج ادویات اور کونسلنگ کے ذریعے ممکن ہوا۔

ڈاکٹر ابوالحسن نے بتایا: ’ایک بیماری ہے جسے ہم انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر کہتے ہیں، اپنے کام کے لیے ایک سے چار گھنٹے موبائل یا انٹرنیٹ کا استعمال کرنا نارمل ہے مگر اس کام کے بعد اگلے آٹھ گھنٹے بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ یہ عادت ایڈکشن کی طرف چلی گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال یا ویڈیو گیمز کھیلنے میں ہمیں وہی عنصر ملتا ہے جو کسی بھی نشہ آور ڈرگ کو استعمال کرنے میں ملتا ہے۔ جیسے اگر آپ نے آئس (نشہ) کیا ہے یا آپ نے آکسیجن شاٹ لیا ہے اسی طرح آپ پب جی کھیلتے ہیں یا کوئی اور گیم یا پورنوگرافی دیکھتے ہیں تو اس میں آپ کو مزا آنے لگتا ہے اور آپ اس میں مزید شامل ہونا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ڈرگ ایڈکشن سے انسان کی موت واقع ہوسکتی ہے، بالکل اسی طرح انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر بھی ہے اور اس میں انسان اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کر لیتا ہے، جیسے لاہور کے دو نوجوانوں نے حال ہی میں یہ قدم اٹھایا۔

ڈاکٹر ابوالحسن کہتے ہیں: ’خودکشی شدید ڈپریشن کا حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت زیادہ تکلیف میں ہیں۔ ہم ہر وقت کسی بھی گیم یا انٹرنیٹ یا کسی نشہ آور چیز کا استعمال کریں اس میں ہمیں ہر وقت مزہ نہیں آتا، ایک وقت آتا ہے کہ ہمارے سسٹم کے اندر خرابی پیدا ہوتی ہے اور ہمیں مزا آنے کی بجائے جسمانی و نفسیاتی طور پر تکلیف ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی تکلیف میں آکر کچھ لوگ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں اس لیے ڈپریشن کا علاج سب سے پہلے بہت ضروری ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام گیمز انسانی دماغ کو کنٹرول کر رہی ہوتی ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس کے ہر لیول پر کامیابی حاصل کریں۔ گیمز کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’بلیو وہیل گیم کے آخری مرحلے میں آپ کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا ہوتا تھا اور بہت سے بچوں نے ایسا کیا بھی۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ گیمز کس حد تک آپ کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ آپ اس میں کسی قسم کی مزاحمت کو برداشت نہیں کر پاتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس بہت سے نشے کے عادی لوگ آتے ہیں اور ان کو نشے کی عادت پڑنے کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر بھی ہے۔ ’ہمارے ہاں انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر کی بیماری کے بارے میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے اور اسے گھر میں ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب بچے ڈرگز بھی لینا شروع کر دیتے ہیں تو پھر وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر کے ساتھ آنے والے مریضوں کی عمریں 13 سے 25 برس کے درمیان ہیں اور جب پب جی اور بلیو وہیل جیسی گیمز آئے تو ان کے پاس آنے والے مریضوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا تھا۔ ’ان کیسز میں ہم نے دیکھا کہ چاہے انٹرنیٹ ایڈکشن ڈس آرڈر ہو یا ہیروئین، چرس یا کوئی اور نشہ، دونوں کو چھڑوانے پر مریض کی نفسیاتی حالت ایک جیسی ہوتی ہے۔‘

والدین کیا کریں؟

ابوالحسن کہتے ہیں کہ رویوں کی بیماری کو رویوں سے ہی ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ جن میں انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کی عادت ہے انہیں یہ عادت نارمل لگتی ہے، وہ یہ نہیں جانتے کہ انہیں انٹرنیٹ یا ویڈیو گیمز کی لت لگ چکی ہے اور وہ 8 سے 14 گھنٹے موبائل یا لیپ ٹاپ پر گزار رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے ہاں ایک ہی کام کیا جاتا ہے کہ سب کچھ فوراً بند کر دو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ سختی کرنا ضروری ہے، والدین میں سے اگر ایک سختی کر رہا ہے تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ تھوڑی نرمی دکھائے اور بچے کے ساتھ اپنا رویہ پیار محبت  والا رکھے۔ ہاں بچے کے سامنے والدین ایک دوسرے کی نفی نہ کریں۔‘

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ رویے آہستہ آہستہ خراب ہوتے ہیں انہیں ٹھیک بھی آہستہ آہستہ ہی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے والدین کو تجویز دی کہ وہ بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں کیونکہ والدین جب خود موبائل پر ہوں گے تو بچے بھی وہی کچھ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وبا کی وجہ سے زیادہ وقت گھر پر گزارنے کی وجہ سے یہ مسائل زیادہ ہوگئے ہیں۔ ’اصول یہ ہونا چاہیے کہ گھر میں وائی فائی مسلسل چار گھنٹے کے لیے بند ہونا چاہیے اور ان چار گھنٹوں میں دماغ کچھ اور کام کرنے کے بارے میں سوچے گا۔‘

والدین کے تجربات کیا ہیں؟

 ہم نے فیس بک پر موجود بچوں کی تربیت کے حوالے سے بنے ایک گروپ ’کڈز براٹ اپ‘ میں ایک سوال پوچھا، ’آپ کے بچے کتنے وقت کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے اور ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں؟ اور کیا آپ کو یہ لگتا ہے کی وہ اس کے عادی ہو چکے ہیں؟‘

اس سوال کے جواب میں مریم عمر ٹوانہ نے اپنا تجربہ لکھا: ’جب میرے بڑے بیٹے چھ برس کے تھے تو ہمیں محسوس ہوا کہ وہ موبائل فون پر ویڈیوز دیکھنے اور گیمز کھیلنے کے عادی ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے رویے میں تبدیلیاں آرہی تھیں۔ وہ بہت زیادہ غصہ دکھانے لگے تھے۔ سب سے پہلے تو ہم نے ان کا موبائل ٹائم کم کیا۔ دن میں صرف دو گھنٹے اور پھر آہستہ آہستہ ہم انہیں ہفتے میں ایک دن پر لے آئے۔ اب وہ 12 سال کے ہیں اور ان کا سکرین ٹائم زیرو ہے۔ ہاں کبھی کبھار 15 دن میں ایک مرتبہ وہ میرا موبائل استعمال کرتے ہیں، وہ بھی صرف کچھ مزاحیہ ویڈیوز دیکھنے کے لیے لیکن ہم نے انہیں کسی قسم کی کوئی ویڈیو گیمز کھیلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔‘

نئیرہ قمر نے لکھا: ’آپ اپنے بچوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ انٹرنیٹ استعمال نہ کریں یا ویڈیو گیمز نہ کھیلیں بلکہ آپ کو انہیں کوئی متبادل فراہم کرنا ہوگا جیسے ہم نے کیا۔ آج کل وبا کے دنوں میں جب سب گھروں پر ہیں تو ہم بطور والدین انہیں مختلف ہنر سکھا رہے ہیں جیسے کچن میں کام کیسے کرنا ہے، سبزی کیسے کاٹنی ہے، چائے کیسے بنانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کا سکرین ٹائم صفر ہے جبکہ کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب انہیں ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے وہ بھی آدھا گھنٹہ بہن کی مرضی کا کوئی پروگرام اور اگلا آدھا گھنٹہ بھائی کی مرضی کا کوئی شو اور اکثر وہ اس ایک گھنٹے میں ٹی وی کے بجائے لیپ ٹاپ استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جس پر وہ کینڈی کرش، کراس ورڈ یا سکریبل وغیرہ جیسے گیم کھیلتے ہیں۔ ہم اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ہر روز وہ ہمارے ساتھ واک پر جائیں اور گھر سے باہر نکل کر کوئی جسمانی ورزش ضرور کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل