لاہور کے شمالی چھاؤنی کے علاقہ صدر بازار کے کرسچن محلہ کے رہائشی 20 سالہ جونٹی جوزف نے گذشتہ رات اپنے کمرےکے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی۔
تھانہ شمالی چھاؤنی کے ایس ڈی پی او ندیم یاسین نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'جونٹی جوزف ایف سی کالج میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا، دوسرے نوجوانوں کی طرح اسے بھی موبائل فون پر 'پلئیر ان نون بیٹل گراؤنڈز' [ پب جی] کھیلنے کا شوق تھا۔ مگر یہ شوق اس کی جان لے گیا۔
اسی ویڈیو گیم کو لے کر اس کے والد سے اس کا گذشتہ رات جھگڑا ہوا۔ والد نے نے اسے ڈانٹا اور ہر وقت موبائل پر پب جی کھیلنے سے منع کیا جس کے بعد وہ ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اگلی صبح والدین کو معلوم ہوا کہ جونٹی جوزف نے اپنے کمرے کے پنکھے سے لٹک کر اپنی جان لے لی ہے۔'
ندیم یاسین کا کہنا ہے کہ پولیس نے جونٹی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوانا چاہا مگر والدین عدالت سے آرڈر لے کر آگئے کہ وہ پوسٹ مارٹم نہیں کروانا چاہتے نہ وہ اس سلسلے میں کوئی قانونی کارروائی چاہتے ہیں۔ جس کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی۔
دوسری جانب متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اومظہر الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو کویہ بتایا کہ 'جونٹی جوزف کے والد نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ جونٹی کی صدر کینٹ میں اپنی ہئیر ڈریسنگ کی دکان بھی تھی، یہ سارا دن دکان پر رہتا تھا اور شام کو گھر آتا تھا اور موبائل پر ہر وقت گیمزکھیلتا تھا، جمعہ کی رات بھی یہ دیر رات تک موبائل پر گیم کھیل رہا تھا جس پر والد سے اس کاجھگڑا ہوا انہوں نےنے منع کیا اور جونٹی ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور بعد میں اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی۔'
پب جی گیم 2017 میں لانچ ہوئی جس کے بعد تب سے اب تک دنیا بھر میں اس کو کھیلنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ گذشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی کہ اس گیم پر پاکستان میں پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس کے منفی اور شدت پسندانہ اثرات بچوں پر ہو رہے ہیں جس پر عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی [پی ٹی اے] کو آرڈر کیا تھا کہ وہ جلد پب جی کو پاکستان میں بند کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرے مگر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ماہر امراض نفسیات ڈاکٹر شفقت ہما نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اب تو تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ پب جی یا دوسری ویڈیو گیمز انسان کو ایسے ہی متاثر کرتی ہیں جیسے کسی بھی قسم کا نشہ، اگر آپ کو گیمز کھیلنے کو نہیں ملیں گی تو حالت ویسی ہی ہو جائے گی جیسے نشہ نہ ملنے پر ہوتی ہے اس میں آپ نتائج کا سوچے بغیر انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں اور جونٹی کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ جب اسے منع کیا گیا تو وہ بھی اضطراریت کا شکار ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان گیمز میں تشدد دکھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں بھی ویسی کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور ان کا غصہ بڑھ جاتا ہے اور یہ غصہ ان کی اضطراری کیفیت میں اضافہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر شفقت کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ کم از کم 12 سال سے پہلے بچوں کو موبائل فون نہ دیں دوسرا اگر بچے ویڈیو گیمز کے نشے کے عادی ہو گئے ہیں تو انہیں آہستہ آہستہ اس سے باہر نکالیں جس کے لیے بچوں کو صحت مندانہ متبادل سرگرمیاں فراہم کریں دوسرا دماغی ونفسیاتی ماہرین سے فوری رابطہ کرنا چاہیے۔'
انڈپینڈنٹ اردو نے جونٹی کے والدین سے رابطہ کی کوشش کی مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا۔