لکھنے والوں نے کیا کیا نہیں لکھا۔ دنیا کی لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ کئی منزلہ عمارتوں کی ہر منزل پہ درجنوں کمرے، ان کمروں میں کھڑے سینکڑوں شیلف لدے ہوئے ہیں دنیا کے ذہین فطین افراد کی تحریروں سے۔ انہی لائبریریوں میں کہیں مجھ جیسے اوسط لکھاری بھی مل جائیں گے۔
کہیں سائنس دان و فلسفہ دان اپنی درجنوں تصانیف کے ساتھ پورے شیلف کو گویا اپنی راجدھانی بنائے بیٹھے ہوں گے، لیکن کتب خانوں کے شیلفوں میں لدی، دبی اور پھنسی یہ کتابیں پڑھنے والوں کی منتظر ہیں۔ اس زمانے میں شاید کوئی بھولا بھٹکا پڑھنے والا آ جائے لیکن آنے والے وقتوں میں کتابوں کو اپنے پڑھنے والوں کا یہ انتظار کس قدر طولانی کرنا ہو گا، یہ وقت کا چلن ابھی سے بتا رہا ہے۔
ایک 16 برس کے بچے کی سالگرہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بچے نے ملنے والے تحفے مہمانوں کے سامنے ہی کھولنا شروع کر دیے۔ ایک تحفہ کھولا تو اندر سے معروف افغان امریکن لکھاری خالد حسینی کے تین ناولز نکلے۔ دینے والی خاتون کا چہرہ چمکا اور جھٹ سے کہنے لگیں کہ ’امید ہے تمہیں یہ رائٹر اور ناولز پسند آئیں گے۔ پہلے فلاں ناول پڑھنا، پھر وہ والا شروع کرنا اور جو حال ہی میں چھپا ہے وہ سب سے آخر میں پڑھنا۔‘
بچے نے ٹکا سا جواب دیا کہ اس نے یہ تینوں ناولز پڑھ لیے ہیں۔ خاتون نے مزید کریدا تو بچہ ناولز کے مرکزی کرداروں کا نام لینے لگا۔ تحفہ دینے والی خاتون بیچاری آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں۔
میں متاثر ہو گئی کہ بھئی واہ اپنی پاکستانی کمیونٹی میں بھی نوجوان بچوں میں پڑھنے کا شوق ابھی باقی ہے۔ یہاں باہر ممالک میں پلنے والے پاکستانی کمیونٹی کے بچوں میں ہم پاکستانیوں کے برخلاف ایک عادت مشترک ہے کہ یہ سچ منہ پہ بولنا سیکھ گئے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ اور کون کون سے لکھاریوں کو پڑھتے ہو تو کہنے لگا کہ میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کسی بھی کتاب کو پڑھ لیتا ہوں۔ وہ مزید تفصیل بتا رہا تھا اور میں سننے کے بجائے صرف سر ہلا رہی تھی۔
دنیا نے علم کے خزانے اگل دیے ہیں لیکن سمیٹنے والوں کے لیے معلومات کا بہاؤ اتنا زیادہ ہے کہ اسے علم کا سونامی کہہ لیں۔ اس سونامی کے سامنے ہم انسانوں کی قوتِ یادداشت اتنی سی ہے کہ صبح سویرے موبائل پہ دیکھا گیا ایک آیورویدک نسخہ کیا تھا، کچھ یاد نہیں۔
خبریں پڑھی تھیں کہ وزیرستان میں حالات اچھے نہیں، فلسطین کی صورت حال سنبھل نہیں رہی اور یہاں ناروے کے شاہی خاندان نے خاندان کا حصہ بننے والے سوتیلے بچوں سے ڈپلومیٹک پاسپورٹ کی سہولت چھین لی ہے۔ آپ شام میں مجھ سے ان تینوں خبروں کی تفصیل پوچھیں، تب تک میری عارضی یادداشت میں نجانے درجنوں اور طرح کی معلومات اکٹھی ہو چکی ہو گی۔
ڈیجیٹل میڈیا مجھے دکھائے گا کہ سٹیل پگھلا کر اس سے چھوٹا سا مجسمہ کیسے بنتا ہے، یا سیخ کبابوں پہ نان کا آٹا گوندھ کر لپیٹو تو ایک انوکھی شاندار ڈش کیسے تیار ہو گی۔ نہ میں نے سٹیل پگھلا کر مجسمہ بنانا ہے، اور نہ ہی سیخ کباب پہ نان کا آٹا لپیٹ کر سیخ نان پکانا ہے۔ ایسی ہزاروں ترکیبیں مجھے معلوم ہیں جن کو نہ کبھی استعمال میں لانا ہے، نہ ہی مجھے ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسان کی اوسط 70، 80 برس کی زندگی میں کسی شخص کے پاس اتنی مہلت نہیں ہے کہ ہر ماہر خوراک کی ہدایات پہ عمل کرے، ہر آیورویدک نسخہ آزمائے، تائی چی، پلاٹے، یوگا یا پھر زومبا دہرائے۔ کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ اپنے 10 پریشر پوائنٹس روز دبائے، زور زور سے 10 منٹ سانس کی مشق کرے یا 10 طرح کے سبز پتوں والے جوس پیے۔
ہمارے اخبار پہلے ہمیں مقامی، قومی اور علاقائی خبریں دیتے تھے، کوئی ایسی عالمی خبر جس کا اثر پوری دنیا پہ ہو تو وہ بھی پہلے صفحے کا حصہ بن جاتی تھی۔ اب ڈیجیٹل نیوز میڈیا کا شکریہ کہ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی کو سربیا کے صدر الیگزنڈر نے لال پھول کیوں پیش کیے۔
معلومات کا یہ بہاؤ ویڈیوز کی شکل میں جب سامنے آتا ہے تو یہ ہماری سننے، دیکھنے، سمجھنے کی صلاحیتوں کو ایک ساتھ متحرک کرتا ہے۔ آپ بس میں سفر کر رہے ہیں، گاڑی چلا رہے ہیں، بستر پہ لیٹے ہیں یا دفتر میں بیٹھے ہیں، ویڈیو پیغام اپنے ٹارگٹ تک پہنچتا ہے بغیر کسی ڈیمانڈ کے۔
پڑھنے والا مواد یعنی کالم، آرٹیکل، اخبار یا کتاب اپنے قاری سے پڑھنے کی صلاحیت اور فوکس ڈیمانڈ کرتے ہیں اور فی زمانہ فوکس یعنی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ پبلک کو اپنی جانب متوجہ کرنا اور جب تک تحریر ختم نہ ہوجائے،اسی جانب متوجہ رکھنا، یہ خاصا بڑا چیلنج ہے
جہاں ویڈیو کی شکل میں خبروں، رپورٹوں، تبصروں، تجزیوں، لطیفوں، ٹوٹکوں، لائف سٹائل شوز، ڈراموں، خاکوں، ناچ گانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ بس ایک کلک کے فاصلے پہ ہے، میرے خیال میں ایسی صورت حال میں اپنے قارئین سے پرانے زمانے والا فوکس ڈیمانڈ کرنا احمقانہ ہے۔
اپنے قارئین سے ایسی امید میں ہر گز نہیں لگانا چاہتی، اسی لیے اب سے کوشش ہو گی کہ اپنی تحریریں، کالمز اور رائے ویڈیوز کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ موبائل فون پہ معلومات کی بھیڑ میں آپ کا مصروف شیڈول ہرگز متاثر نہ ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔