جب خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی تحصیل درہ آدم خیل میں واقع بدنام ترین اسلحے کی مارکیٹ میں شور شرابہ بڑھتا ہے تو اسلحہ ڈیلر محمد جہانزیب سکون کی تلاش میں کتابیں پڑھنے کے لیے لائبریری چلے جاتے ہیں۔
28 سالہ محمد جہانزیب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ میرا پسندیدہ مشغلہ ہے، اسی لیے میں کبھی کبھار چپکے سے چلا جاتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ یہاں ایک لائبریری ہو اور میری خواہش پوری ہوگئی۔‘
درہ آدم خیل کا علاقہ انتہائی قدامت پسند قبائلی پٹی کا حصہ ہے اور آس پاس کے پہاڑوں میں دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی اور منشیات مافیا کے باعث یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’وائلڈ ویسٹ‘ کے طور پر مشہور ہے۔
یہ طویل عرصے سے اسلحے کی بلیک مارکیٹ کے لیے جانا جاتا ہے جو مقامی طور پر تیار کردہ امریکی رائفلوں، اصل سے مشابہ ریوالور اور اے کے -47 سے بھرا پڑا ہے۔
لیکن کچھ ہی فاصلے پر قصبے کی ایک لائبریری میں ورجینیا وولف کی کلاسک ’مسزڈیلوے‘، ویمپائر رومانوی سیریز ’ٹوائی لائٹ‘ اور ابراہم لنکن کی ’زندگی، تقاریر اور خطوط‘ جیسی کتابیں بھی موجود ہیں۔
اس لائبریری کے 36 سالہ بانی راج محمد نے بتایا: ’ شروع میں ہماری حوصلہ شکنی ہوئی۔ لوگوں نے پوچھا کہ درہ آدم خیل جیسی جگہ پر کتابیں کیا کر رہی ہیں؟ یہاں کون کیا کرے گا؟ لیکن ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور آگے بڑھتے رہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’2018 میں ہم نے باقاعدہ لائبریری کی بنیاد رکھی۔ میں نے خود درہ بازار میں کرائے پر جگہ کا بندوبست کیا۔ ہم نے اسلحے کے اوپر کتابیں سجا دیں۔‘
تبدیلیوں کا آغاز
قبائلی علاقوں میں غربت، پدرسری اقدار، بین النسل تنازعات اور سکولوں کی کمی کے باعث شرح خواندگی پاکستان میں سب سے کم ہے، لیکن یہاں کے رویوں میں اب تبدیلی آ رہی ہے۔
نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے ایک 33 سالہ لائبریری رضاکار اور اسلحہ ڈیلر شفیع اللہ آفریدی نے کہا کہ ’نوجوان نسل اب ہتھیاروں کے بجائے تعلیم میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘
تین زبانوں انگریزی، اردو اور پشتو میں چار ہزار کتابوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے آفریدی کا کہنا تھا کہ ’جب لوگ اپنے پڑوس کے نوجوانوں کو ڈاکٹر اور انجینیئر بنتا دیکھتے ہیں تو دوسرے بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
پس منظر میں بندوق برداروں کی جانب سے ہتھیاروں کی آزمائش اور گولیوں کے شور کے باوجود، لائبریری کا ماحول خوشگوار ہے۔
تاہم آفریدی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی شفٹ کے دوران ہتھیار لائبریری میں نہ لائے جائیں۔
اسلحے کا ایک نوجوان ڈیلر لائبریری کے دروازے تک جاتا ہے اور اپنی اے کے-47 کو دروازے پر چھوڑ دیتا ہے، لیکن اپنے سائیڈ آرم کو اپنی کمر پر باندھے رکھتا ہے اور بک شیلفس کو کھنگالنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس لائبریری میں ٹام کلینسی، سٹیفن کنگ اور مائیکل کریچٹن کے ساتھ ساتھ پاکستان اور انڈیا کی تاریخ اور سول سروس کے امتحانات کے لیے گائیڈز سمیت اسلامی تعلیمات والی کتب بھی موجود ہیں۔
’ہتھیار نہیں تعلیم‘
پاکستان کے دیہی علاقوں میں لائبریریاں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہیں اور چند جو شہری علاقوں موجود ہیں انہیں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔
2018 میں یہ درہ آدم خیل کے مرکزی بازار میں موجود سینکڑوں دکانوں میں سے ایک کے اوپر بنایا گیا ایک کمرا تھا، جس میں تاج محمد کی ذاتی کتابیں موجود تھیں۔
تاج محمد نے ماہانہ کرائے کے طور پر 2500 روپے ادا کیے، لیکن کتابوں کے شائقین کو نیچے موجود بازار کے شور کی وجہ سے توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ منصوبہ جلد ہی ایک کمرے سے بڑھ کر ایک سال بعد ایک منزلہ عمارت میں منتقل ہوگیا، جو اس لائبریری کو عطیہ کی گئی زمین پر مقامی برادری کی مالی اعانت سے تعمیر کی گئی ہے۔
پلاٹ تحفے میں دینے والے خاندان کے 65 سالہ سرپرست عرفان اللہ خان نے کہا: ’ایک وقت تھا جب ہمارے نوجوان زیورات کی طرح ہتھیاروں سے خود کو آراستہ کرتے تھے۔‘
اپنے بیٹے آفریدی کے ساتھ اپنا وقت دینے والے عرفان اللہ خان نے کہا: ’لیکن مرد علم کے زیور کے ساتھ خوبصورت لگتے ہیں، خوبصورتی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ تعلیم میں ہے۔‘
لائبریری کے 10 میں سے ایک رکن خاتون ہیں، جو قبائلی علاقوں کے لیے بہت زیادہ تعداد ہے۔
عام لوگوں کے لیے ایک لائبریری کارڈ کی قیمت سالانہ 150 روپے، جبکہ طلبہ کے لیے 100 روپے ہے۔ نوجوان سکول سے وقفے کے دوران بھی لائبریری آ اور جا سکتے ہیں۔
نو سالہ مناہل جہانگیر اور پانچ سالہ حریم سعید بھی لائبریری میں کتابیں پڑھنے والوں میں شامل ہیں۔
حریم سعید نے شرماتے ہوئے کہا: ’میری ماں کا خواب ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ اگر میں یہاں پڑھوں تو میں ان کے خواب کو پورا کر سکتی ہوں۔‘