طالبان کی حکومت سے پاکستانی معیشت کو فائدہ یا نقصان؟

ایک طرف افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے پاکستان پر منفی اثرات ہیں لیکن دوسری طرف کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔

تقریباً 20 سے 30 ہزار لوگ روزانہ پاک افغان سرحد پر سفر کرتے ہیں(اے ایف پی)

گل خان پشاور کی ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ معدنیات، زرعی اجناس اور پیٹرولیم مصنوعات میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کی آمدن کا 50 فیصد افغانستان اور 50 فیصد پاکستان سے آتا ہے۔

جب سے طالبان نے افغانستان کو فتح کیا ہے وہ شش و پنج کا شکار ہو گئے ہیں کہ ان کے کاروبار کا مستقبل کیا ہو گا اور طالبان کس طرح کی معاشی پالیسی لے کر آئیں گے۔

انہوں نے جو کروڑوں روپوں کا ادھار سامان افغانستان میں بیچا ہوا ہے اس کی ریکوری کیسے ہو گی، تجارت کے لیے بھیجے گئے سامان کی حفاظت کیسے ممکن ہو سکے گی۔

اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے ماہر معیشت ظفر پراچہ صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت دوبارہ 164 روپے پر جانے کی ایک وجہ افغانستان میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال ہے۔

تقریباً 20 سے 30 ہزار لوگ روزانہ پاک افغان سرحد پر سفر کرتے ہیں۔ دوران سفر وہ افغان کرنسی یا ڈالرز ساتھ رکھتے ہیں۔ جب سے طالبان نے افغانستان کے بڑے صوبوں کو فتح کرنا شروع کیا، افغان کرنسی کی قیمت گر گئی۔

اس لیے لوگ اپنے ساتھ ڈالرز رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ڈالرز کی بڑی تعداد چونکہ پاکستان سے خریدی جاتی ہے اس لیے پاکستانی مارکیٹ میں ڈالرز کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

افغانستان میں بھی ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے، جس کے باعث ڈالر سمگلنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گل خان سوچنے لگا کہ حکومت پاکستان تو دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان سے ڈالر سمگلنگ مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو بھی یہی رپورٹ پیش کی گئی کہ پاکستان سے منی لانڈرنگ ناممکن ہے لیکن صورت حال مختلف دکھائی دے رہی ہے۔

بظاہر افغانستان کی غیریقینی صورتِ حال جلد ختم ہونے والی نہیں۔ اگر کئی ماہ تک یہی حالت برقرار رہی تو پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اگر حکومت نے بروقت کوئی انتظام نہ کیا تو آنے والے دن زیادہ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

طالبان کی حکومت کے پاکستانی معیشت پر ممکنہ اثرات جاننے کے لیے گل خان نے وزارت خزانہ کے ایک دوست سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اپریل کے مہینے میں حکومت نے اڑھائی ارب ڈالرز کے بانڈز جاری کیے تھے، جن کی کارکردگی بہت بہتر تھی۔

قیمت بڑھنے کی وجہ سے جولائی کے مہینے میں مزید ایک ارب ڈالر جاری کیے گئے۔ لیکن جب سے طالبان نے کابل فتح کیا ہے بانڈز کی قیمت میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔

پانچ سالہ مدت کے بانڈز کی قیمت میں 1.5 فیصد، دس سالہ بانڈز کی قیمت میں 1.7 فیصد اور 30 سالہ بانڈز کی قیمت میں 1.8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں جب طالبان پر مزید پابندیاں لگیں گی تو پاکستان بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے۔

اس لیے پاکستان میں سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔ غیر یقینی صورت حال کی باعث بانڈز کی قیمت میں کمی ہو رہی ہے۔

طالبان کی جیت کے بعد بھارت پوری دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ طالبان کی فتح کے پیچھے پاکستان کی منصوبہ بندی ہے اور طالبان اور پاکستان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

طالبان کو تو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کابل 14 اگست کو فتح ہو یا 15 اگست کو، یہ آئیڈیا دراصل پاکستان کا تھا تاکہ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سوگ میں بدلا جا سکے۔

نہ جانے یہ موقف کس حد تک غلط ہے یا درست ہے، لیکن اس تاثر کو جتنا جلدی ہو ختم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام ابھی تک دوبارہ شروع نہیں ہو سکا ہے۔

ورلڈ بینک نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے اورموجودہ مالی سال میں تقریبا بیس ارب ڈالرز قرض واپس کرنا ہے۔ ان حالات میں طالبان کی سپورٹ کا ٹیگ پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

گل خان سوچنے لگا کہ ایک طرف پاکستان کے بارے میں تاثر خراب ہو رہا ہے اور  دوسری طرف حکومتی اور عوامی سطح پر طالبان کی جیت کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ جبکہ حکومت یہ بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت ہے۔ جو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

حکومت اتنے اہم معاملے پر کس طرح غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشین کے مقابلے میں پاکستانی موقف پوری دنیا تک پہنچائے جانے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہونے سے بچ سکے اور کاروباری حضرات کے لیے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں۔

ایک طرف افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے پاکستان پر منفی اثرات ہیں لیکن دوسری کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔

‎گل خان چونکہ پاکستان اور افغانستان معدنیات کے کاروبار سے منسلک ہیں اس لیے وہ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں۔ خاص طور پر چین، ترکی، روس، تاجکستان، آذربائیجان اور ترکمانستان افغانستان میں اربوں ڈالرز کے منصوبے لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

افغانستان معدنیات کے حوالے سے مالامال ہے۔ سونا، چاندی، سٹیل، لوہا، کاپر، اور لیتھیم کے تقریباً دس کھرب ڈالرز کے ایسے ذخائر موجود ہیں جنھیں ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔

اگر دیگر معدنیات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی مالیت تقریبا تین کھرب ڈالرز بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر بھی موجود ہیں جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔

‎ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا کی تمام‎ بڑی مائننگ کمپنیاں افغانستان کا رخ کر سکتی ہیں۔ ‎ابھی بھی کچھ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے ہیڈ آفس کابل میں ہیں۔

‎انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ میں پڑھا کہ افغانستان مستقبل میں لیتھیم کا بہت بڑا ایکسپورٹر بن سکتا ہے اور یہ کہ امریکی رپورٹ میں افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب قرار دیا گیا ہے۔ یعنی کہ جس طرح سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے اسی طرح افغانستان لیتھیم کی دولت سے مالا مال ہے۔

لیتھیم کا استعمال موبائل بنانے اور الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں بنانے میں ہوتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں پر تیزی کے منتقل ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں افغانستان پوری دنیا کی ضرورت بن سکتا ہے۔

گل خان سوچنے لگے کہ اگر حکومت پاکستان دلچسپی لے تو افغانستان کی موجودہ صورت حال کو پاکستان کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اپنی جیب سے سرمایہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

صرف ماحول بنا کر دینا ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار خود پیسہ لگا سکتے ہیں اور وہ اس کے لیے تیار بھی ہیں۔ اس وقت طالبان کو پاکستان کی ضرورت ہے۔

ان حالات میں تجارتی تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو فائدہ حاصل ہو گا بلکہ افغانستان میں بے روزگاری کم کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔

پاک افغان تجارتی مسائل حل کرنے کے حوالے سے انہوں نے ایک کالم میں ماہر معیشت ظفر پراچہ صاحب کی تجاویز پڑھیں۔ پراچہ صاحب کے مطابق پاکستان کا بڑا مسئلہ وسطی ایشائی ممالک کو تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ہے۔

چار سال پہلے تک پاکستانی ٹرک زرعی اجناس لے کر افغانستان داخل ہوتے تھے اور وسطی ایشیا بارڈر تک خود مال لے کر جاتے تھے۔

جس سے خرابی کی شرح بہت کم رہتی تھی لیکن 2017 میں اشرف غنی نے پابندی لگا دی کہ جب تک افغان ٹرکوں کو پاکستان میں داخل ہو کر مطلوبہ مقامات تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جاتی، پاکستانی ٹرکوں کو بھی افغان بارڈر پر آف لوڈ کر کے سامان افغان ٹرکوں کے ذریعے وسطی ایشائی ممالک تک پہنچایا جائے گا۔ جس سے پاکستان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔

طالبان کی حکومت آنے کے بعد اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ جس کے حل نہ ہونے کی ایک وجہ اشرف غنی حکومت کی عدم تعاون کی پالیسی تھی۔

اس کے علاوہ بہت سے ایسے تجارتی مسائل ہیں جو صرف دونوں اطرف کے تاجروں کی ایک میٹنگ سے حل ہو سکتے ہیں۔

کابل اور طورخم میں چیمبر آف کامرس کے قیام اور ہفتہ وار ایک میٹنگ کے انعقاد سے دو طرفہ تجارت کو فروغ مل سکے گا۔ طالبان کو اس وقت پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔

ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے مطا لبات منوائے جا سکتے ہیں، جن کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اسی دوران گل خان کو طورخم بارڈر سے خبر ملی کہ طورخم بارڈر پر کسٹم ڈیوٹی میں 90 فیصد تک کی رعایت کر دی گئی ہے۔ افغان طالبان نے نیا رعایتی اور عبوری کسٹم ٹیرف جاری کر دیا ہے جس کے بعد طورخم بارڈر سے تجارتی اشیا کی آمد ورفت بحال ہو گئی ہے اور 24 گھنٹوں میں 700 سے زائد گاڑیوں نے سرحد عبور کی ہے۔

یہ خبر گل خان کے لیے کسی عید سے کم نہیں تھی کیونکہ اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد پاک افغان طورخم بارڈر پر غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگئی تھی اور سینکڑوں ٹرک دونوں جانب مختلف شاہراہوں پر کھڑے ہو گئے تھے۔ جس سے کروڑوں روپوں کا نقصان ہو رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گل خان ابھی تو خوش ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کبھی سرحد بند کر دو اور کبھی کھول دو کی پالیسی کب تک چلے گی۔ جب تک طالبان کی پالیسی میں مستقل مزاجی نہیں آئے گی تجارت کرنا مشکل رہے گا۔

گل خان کا کہنا ہے کہ میں تو اس وقت طالبان کی حکومت کو بہتر مانوں گا جب میرے کاروبار میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ مجھ سے رشوت نہ لی جائے اور میرا سامان بحفاظت افغانی منڈیوں تک پہنچ سکے۔

ان معاملات پر حکومتی موقف جاننے کے لیے ڈاکٹر سلیمان شاہ صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’چین افغانستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ مل کر افغانستان میں شراکت داری کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ پاک افغان سرحد پر سفر کرنے والوں میں ڈالر کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان پاکستان میں ڈالر کی قیمت 164 روپے تک بڑھنے کی ایک وجہ ہو سکتا ہے لیکن اس کا اثر بہت کم ہو گا۔

اپریل میں جاری کیے گئے بانڈز کی قیمت میں کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کے ڈالر بانڈز کی قیمت میں کمی آنے کا تاثر مکمل طور پر درست نہیں ہے۔

تھوڑا بہت فرق تو پڑ سکتا ہے لیکن کُلی طور پر افغان حالات کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ