پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع چمن بارڈر سے متصل شہر سپین بولدک کے مقام پر طالبان کی جانب سے سرحد کو ہر قسم کی نقل و حرکت کے لیے بند کیے جانے کے بعد پاکستان میں پھنسے افغان شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
گذشتہ دنوں طالبان رہنما اور قندھار کے کمشنر حاجی وفا کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، جس میں سرحد کی بندش کا اعلان کیا گیا تھا۔
افغان طالبان کے اس اقدام کے بعد چمن بارڈر پر بہت سے افغان شہری جن میں خواتین، بچے، مریض اور بوڑھے شامل ہیں، پھنس کر رہ گئے ہیں، جو افغانستان جانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب سرحد کی بندش سے نہ صرف دوطرفہ تجارت بند ہوگئی بلکہ وسطی ایشیا تک تجارت سامان کی سپلائی بھی معطل ہوگئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو بڑی گزرگاہیں ہیں، جن میں سے ایک طورخم اور دوسرا چمن بارڈر ہے۔ ان دونوں بارڈرز پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان روزانہ لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد کی آمدورفت ہوتی ہے، لیکن سرحد کی بندش سے نہ صرف تاجروں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہو رہا ہے بلکہ ٹرکوں کے ذریعے آنے والے پھل اور سبزیاں بھی خراب ہونے لگی ہیں۔
چمن بارڈر پر موجود قندھار کے رہائشی گلستان نے صحافی دلبر خان کو بتایا کہ وہ 15 دن قبل علاج کے لیے اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان آئے تھے، لیکن اب یہاں پھنس گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’تین روز سے ایک گھر سے دوسرے گھر میں رات گزار رہا ہوں، یہی مشکلات ہیں۔ قندھار میں میرا گھر ہے۔ میں نے سارے بچے قندھار میں چھوڑے ہیں۔کوئی بڑا نہیں ہے۔ جو بڑے تھے وہ ہم تھے ہم ادھر پھنسے ہیں۔‘
دوسری جانب کابل کے رہائشی ایک افغان شہری نے بتایا کہ وہ کوئٹہ سے آئے ہیں اور افغانستان جارہے ہیں۔ ’رات مسجدوں میں گزارتا ہوں، پیسے نہیں ہیں۔ جانےکا کرایہ نہیں ہے۔گھر کابل میں ہے۔ یہاں پر پھنسا ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’میں بہت بوڑھا ہو، میرے جسم اور میرے پاؤں صیح کام نہیں کر رہے۔ مجھے کھانا نہیں مل رہا۔ اللہ کے علاوہ میرا کوئی نہیں ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ’طالبان تو ہمارے اپنے افغانی ہیں۔ وہ کیوں ہمارے فریاد نہیں سنتے۔ ہم یہاں سخت گرمی اور دھوپ میں پھنسے ہیں۔ نہ کوئی جاسکتا اور نہ آسکتا ہے۔‘
نیٹو کا افغانستان سے انخلا جاری ہے: حکام
نیٹو اتحاد کے حکام نے پیر کے روز بتایا ہے کہ افغانستان سے نیٹو کا انخلا جاری ہے جبکہ جنگ زدہ ملک میں طالبان نے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔
حکام نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ’نیٹو کا ریزولیوٹ سپورٹ مشن اور انخلا دونوں جاری ہیں۔‘
نیٹو کے اعلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’اس تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری انہیں منظم نہیں ہونے دے گی اگر وہ سیاسی عمل کو مسترد کریں گے اور ملک پر طاقت کے زور پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
طالبان کا چھٹے افغان صوبائی دارالحکومت ایبک پر قبضہ
افغان صوبے سمنگان کے ڈپٹی گورنر کا کہنا ہے کہ طالبان نے پیر کو صوبائی دارالحکومت ایبک کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
صوبہ سمنگان کے نائب گورنر صفت اللہ سمنگانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان اس وقت بغیر کسی لڑائی کے ایبک میں داخل ہوگئے جب علاقہ عمائدین نے حکام سے التجا کی کہ شہر کومزید تشدد سے بچایا جائے۔
سمنگانی نے مزید کہا: ’گورنر نے اس درخواست کو قبول کیا اور تمام افواج کو شہر سے واپس بلا لیا۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کے پاس اب ’مکمل کنٹرول‘ ہے۔
طالبان کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ ایبک شہر پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔
اس سے قبل طالبان نے ملک کے شمال میں پانچ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر کھا ہے، جس سے خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ افغان حکومت تیزی سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے۔
افغانستان: کابل میں ریڈیو سٹیشن کا مینیجر قتل، ہلمند میں صحافی اغوا
افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے دارالحکومت کابل میں افغان ریڈیو سٹیشن کے ایک مینیجر کو ہلاک اور جنوبی صوبے ہلمند میں ایک صحافی کو اغوا کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان حکام نے ذرائع ابلاغ کے کارکنوں پر ہدف بنا کر کیے درجنوں حملوں کے ضمن میں تازہ ترین حملے کے بارے میں بتایا ہے۔
حکومتی عہدے داروں کے مطابق مسلح افراد نے اتوارکو کابل میں پکتیا غگ ریڈیو کے مینیجر طوفان عمر کو ہدف بنا کر ان پر فائرنگ کی جس میں وہ ہلاک ہو گئے۔
وہ انسانی حقوق کے ایک گروپ (این اے آئی) ’نی‘ کے افسر تھے جو افغانستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے لیے کام کرتا ہے۔
’نی‘ کے سربراہ مجیب خلوت گرکے مطابق: طوفان عمر کو نامعلوم مسلح افراد نے ہلاک کر دیا۔ وہ آزاد خیال شخص تھے۔ ہمیں آزادنہ طور پر کام کرنے کی وجہ سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب کابل میں حکام نے شبہ ظاہر کیا کہ طالبان نے ان پر حملہ کیا۔
نی نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس سال عسکریت پسند گروپ نے کم از کم 30 صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو ہلاک یا زخمی کیا یا اغوا کر لیا۔
ادھر جنوبی صوبہ ہلمند میں حکام نے کہا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے اتوار مقامی صحافی نعمت اللہ ہمت کو صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ میں واقع ان کے گھر سے اغوا کر لیا ہے۔
نجی ٹیلی ویژن چینل غرغشت ٹی وی کے سربراہ رضوان میاخیل نے کہا ہے کہ ’قطعی طور پر ایسا کوئی سراغ نہیں ہے کہ طالبان ہمت کو کہاں لے گئے ہیں۔ ہم واقعی خوف کے عالم میں ہیں۔‘
مغوی صحافی ہمت اسی چینل میں کام کرتے تھے۔
دوسری جانب طالبان ترجمان نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ان کے پاس کابل میں صحافی کے قتل یا ہلمند میں اغوا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں کی تنظیم نے نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور ایوان نمائندگان کے قائدین کو خط لکھ کر ان پر زور دیا ہے کہ افغان صحافیوں اور معاون عملے کو امریکہ کے خصوصی امیگریشن ویزے جاری کیے جائیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر تین شمالی شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہ مزید شہروں پر قبضے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
طالبان نے سرکاری فورسز پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس ماہ کے آخر تک افغانستان میں فوجی مشن ختم کر دے گا۔
کابل سے صحافی بلال سروری: افغانستان میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی شدید مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ طالبان نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں حیران کن طور پر چار صوبائی مراکز پر قبضہ کر کے اس غلط فہمی کو ختم کر دیا کہ وہ امریکی فورسز کے جاری رواں ماہ کے اواخر میں اعلان شدہ انخلا تک صوبائی مراکز اور بڑے شہروں پر قبضہ نہیں کریں گے۔
طالبان نے سب سے پہلے ایران سے متصل افغانستان کے جنوبی صوبہ نمروز کے مرکزی شہر زرنج پر بغیر کسی خاص مزاحمت کا سامنا کیے قبضہ کر لیا۔
اطلاعات کے مطابق سو سے زائد افغان فورسز فوجی گاڑیوں میں سرحد پار ایران طالبان کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لیے منتقل ہو گئے۔
نمروز کے مرکز پر طالبان کے یوں بغیر کسی مزاحمت کے قبضے نے افغانستان کے اندر اس صوبہ کی قیادت کے متعلق کئی سوالوں اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
زرنج پر طالبان کے قبضے کے بعد ہفتہ کی شب اس صوبہ کے لیے طالبان کے نامزد گورنر اور یہاں پر طالبان کی جنگی قیادت کرنے والے کمانڈر مولوی عبدالخالق عرف مولوی عابد کو بھی امریکی ڈرون نے نشانہ بنا کر اس سے قتل کیا جو یہاں پر طالبان کے لئے ایک اہم نقصان ہے۔
نمروز سے بھی زیادہ حیران کن خبر اس وقت سامنے آئی جب طالبان نے شمال میں افغان فیلڈ مارشل جنرل عبدالرشید دوستم کے مرکز صوبہ جوزجان کے مرکز شبرغان پر قبضہ کیا۔
طالبان نے یہاں جنرل دوستم کی رہائش اور مراکز پر قبضہ کر کے وسیع مقدار میں اسلحہ اور دیگر وسائل پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
جنرل دوستم اسی روز ترکی میں ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد کابل وآپس پہنچے تھے جبکہ ان کے فرزند باتور دوستم شبرغان میں طالبان کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔ مگر طالبان کی پیش قدمی کے بعد وہ بھی اپنے جنگجوں سمیت وہاں سے نکل آئے ہے۔
طالبان نے اس کے علاوہ صوبہ قندوز کے صوبائی مرکز پر قبضہ کر کے اس صوبے کو بھی اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا ہے۔ طالبان نے قندوز کے مرکز پر چھ سال قبل بھی قبضہ بھی کیا تھا مگر حکومتی فورسز نے اس وقت چند دنوں میں یہاں سے نکال دیا تھا۔
اس دفعہ طالبان نے قندوز شہر میں واقع بالا حصار نامی بڑے فوجی مرکز پر بھی قبضہ کیا ہے جس پر پچھلی دفعہ یہ کنٹرول حاصل نہیں کرسکے اور پھر یہیں سے حکومتی فورسز نے شدید مزاحمت کرکے فضائی بمباری کی مدد سے طالبان کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔
قندوز وہ تاریخی صوبہ ہے کہ جو شمال میں طالبان کا آخری گڑھ تھا جہاں پر افغانستان پر امریکہ حملہ کے بعد طالبان قیادت نے القاعدہ، اپنے پاکستانی اور دیگر غیر ملکی جہادی ساتھیوں سمیت ہزاروں جنگجوں کو جنرل دوستم کو اسے وعدے کے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ وہ ان کو پرامن راستہ دیں گے۔
مگر جنرل دوستم ان کو کنٹینروں میں بھر کر جوزجان لے کر آئے جس میں طالبان اور اس کے حامیوں سمیت سینکڑوں جنگجو قتل ہوگئے۔
طالبان نے سال 2010 میں شمال میں سب سے پہلے اسی صوبہ سے اپنی قوت کا آغاز کیا۔ قندوز کی مثال افغانستان کے شمالی صوبوں میں قلب کی ہے اور یہاں قبضہ کرنے سے طالبان کو دیگر صوبوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں آسانی رہے گی۔
چوتھا صوبائی مرکز جس پر طالبان نے اتوار کو قبضہ کیا وہ صوبہ تخار کا مرکزی شہر طالقان تھا۔ تخار وہ صوبہ ہے کہ جس پر نوے کی دہائی کے اپنے عروج کے دور میں بھی طالبان قبضہ نہ کرسکے تھے۔
اس وقت شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کا آبائی ضلع پنجشیر بھی تخار کا حصہ تھا، جو کہ نائن الیون کے بعد الگ صوبہ قرار دیا گیا۔
پنجشیر کے علاوہ احمد شاہ مسعود نے تخار کے ضلع فرخار میں طالبان میں اپنا مرکز بنایا تھا جہاں سے طالبان کے خلاف لڑائی کی تمام منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ تخار پر مکمل قبضے سے طالبان نے اب صوبہ پنجشیر کے گرد گھیرا ڈالا ہے کیونکہ تخار ہی پنچشیر کا دروازہ ہے۔
قندوز، جوزجان اور تخار پر قبضہ کرنے کے بعد شمال کے دیگر صوبے خصوصاً بلخ جس کا صوبائی مرکز تاریخی مزار شریف شہر ہے وہ بھی طالبان کے گھیرے میں آچکے ہیں۔
مزارشریف کے طالبان کے ہاتھوں قبضہ ہونے کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں اور یہ خطرہ دیکھا جا رہا ہے کہ شاید یہ شہر بھی جلد طالبان کے قبضہ میں آجائے گا۔
اس کے علاوہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں افغان فورسز جنرل سمیع سادات کے زیر قیادت طالبان کے خلاف شدید مزاحمت کر رہے ہیں اور اب تک طالبان اس شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
لشکر گاہ وہ پہلا صوبائی مرکز تھا جس پر طالبان نے اپنی پوری وقت سے زور آزمائی کی مگر وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہ ہوسکے۔
یہاں پر طالبان نے اپنے بہترین جنگجو اور خصوصی دستے لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان حکومت بھی لشکر گاہ میں طالبان کے خلاف اپنی بھرپور قوت استعمال کر رہی ہے۔
افغان سپیشل فورسز کے سربراہ جنرل ہیبت اللہ علیزئی بھی اپنی فورسز کے ساتھ لشکر گاہ میں جنرل سمیع سادات کے ہمراہ موجود ہیں۔ یہ دونوں جنرلز قریبی دوست بھی ہیں۔
اس کے علاوہ امریکی ائیر فورس بھی افغان فورسز کی دفاع میں طالبان کے خلاف شدید بمباری کر رہی ہے۔ جس میں شہر میں ہسپتالوں، یونیورسٹیز اور مساجد سمیت کئی دیگر عوامی مقامات نشانہ بنے ہیں۔
لشکر گاہ میں آدھے سے زیادہ شہر پر طالبان نے گذشتہ ہفتہ سے قبضہ کرلیا ہے اور حکومتی فورسز فقط ایک دوسرے سے متصل چار پانچ سرکاری عمارتوں تک محدود ہیں۔ مگر پھر بھی جنرل سادات کے زیر قیادت افغان فورسز طالبان کو آگے بڑھنے نہیں دے رہیں۔
اسی طرح ہلمند سے متصل دوسرے اہم صوبہ قندھار کے اہم سیاسی شخصیات اور کمانڈروں نے اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے سابق افغان صدر حامد کرزئی کے زیر قیادت اجلاس کے بعد اس صوبہ پر طالبان کے قبضے کو روکنے کے لیے قندھار کا رخ کیا ہے۔
سابق افغان وزیر گل آغا شیرزئی اور طالبان کے اہم مخالف جنرل عبدالرازق کے بھائی جنرل تادین اکھٹے قندھار شہر پہنچ گئے ہیں۔ جہاں وہ اپنے حامیوں کو شہر کے دفاع اور طالبان کے زیر قبضہ سپین بولدک اور دیگر اضلاع کو چھڑوانے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔
ادھر افغان حکومت نے اپنے اہم دستوں کو قندھار روانہ کر دیا ہے۔ افغان انٹیلیجنس کے ڈپٹی سربراہ جنرل رحمت اللہ خود قندھار پہنچ چکے ہیں جن کے ہمراہ خوست پروٹیکشن فورسز کے امریکی سی آئی اے کے تربیت یافتہ دستے بھی ہیں۔
جنرل رحمت اللہ خوست پروٹیکشن فورسز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ہلمند کے علاوہ ہرات وہ دوسرا اہم صوبہ ہے کہ جہاں پر طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ طالبان نے ہلمند کے ساتھ اول یہاں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر کئی روز کی مسلسل کوششوں کے بعد ابھی تک یہ بری طرح ناکام رہے ہیں۔
یہاں پر سابق افغان جہادی کمانڈر اسماعیل خان اپنے حامیوں کے ساتھ افغان فورسز کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف کافی شدید لڑائی مصروف ہے۔ اسماعیل خان کی یہ بھرپور مزاحمت اب تک طالبان کی ناکامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
ایک اعلی افغان سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ امریکہ نے طالبان کے ان پیش قدمیوں کے بعد افغان فورسز کے لیے طالبان کے خلاف لڑائی میں اپنے فضائی مدد میں اضافہ کیا ہے۔
اس سے قبل امریکی ائیر فورس کابل، ہلمند اور قندھار میں طالبان کے خلاف افغان فورسز کی حمایت کر رہی تھی مگر اب امریکہ نے اپنے فضائی کارروائیوں کا دائرہ شمال مشرقی اور جنوب مشرقی صوبوں تک بڑھا دیا ہے۔ امریکہ نے اس سلسلہ میں اس لڑائی میں اپنے جنگی قوت میں اضافہ بھی کیا ہے۔
افغان حکومت سے جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا: طالبان
طالبان نے واضح کیا ہے کہ ان کا افغان حکومت سے جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے اتوار کو الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو میں ملک کے اندر امریکی مداخلت کے حوالے سے خبردار بھی کیا۔
طالبان کی جانب سے اتوار کو شمال مشرقی شہر قندوز سمیت تین صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا بیان سامنے آیا تھا۔
روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے شمال پر دباؤ بڑھا دیا ہے جس کے بعد مزید شہروں پر قبضے کا اندیشہ ہے۔
عسکریت پسندوں نے حالیہ مہینوں میں درجنوں اضلاع اور بارڈر کراسنگ پر قبضہ کیا ہے۔
انہوں نے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد مغرب میں ہرات اور جنوب میں قندھار سمیت کئی صوبائی دارالحکومتوں پر دباؤ ڈالا ہے۔
دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی نے کہا کہ قندوز میں افغان فورسز کا مشترکہ سیکورٹی اور دفاعی آپریشن کامیاب رہا ہے۔
ان کے مطابق آپریشن کے دوران کئی علاقوں کو باغیوں سے خالی کرا لیا گیا ہے۔
طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا انہوں نے قندوز کے گورنر کے دفتر، پولیس ہیڈ کوارٹر، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس)، بالا حصار اور ایک جیل پر قبضہ کر لیا ہے۔
بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سر پل کے مرکز میں تمام سرکاری عمارتیں اور سہولیات ان کے کنٹرول میں ہیں۔
دریں اثنا افغان وزارت دفاع کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغان کمانڈوز نے قندوز شہر میں ایک آپریشن شروع کر دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن کے دوران نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور جنرل عبدالرازق سے تعلق رکھنے والے چار علاقوں کو طالبان سے پاک کر دیا گیا ہے۔
قندوز میں بعض مقامات پر فضائی حملوں کی بھی اطلاعات ہیں اور لڑائی کے دوران کچھ دکانوں اور بازاروں کو آگ لگا دی گئی۔
تاہم ابھی تک شہر میں دونوں اطراف سے شہری ہلاکتوں کی کوئی درست اطلاع نہیں ملی ہے۔
بیان کے مطابق یہ آپریشن تب تک جاری رہے گا جب تک قندوز مکمل طور پر کلیئر نہیں ہو جاتا۔
ادھر سر پل سے موصول ہونے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ شہر کے بیشتر حصے اور سرکاری عمارتیں طالبان کے ہاتھوں میں آچکی ہیں اور امام کلاں کے علاقے میں اس وقت افغان فوج کی صرف ایک بٹالین مزاحمت کر رہی ہے۔
امریکہ کے اگست کے آخر تک ملک میں اپنا فوجی مشن ختم کرنے کے فیصلے کے بعد حالیہ دنوں میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
’طالبان بڑی چالاکی سے افغانستان میں خوف کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہے‘
امریکہ کے کابل میں سابق سفیر رائن کروکر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔
اے ایف پی کی خبر میں بتایا گیا کہ کروکر نے اے بی سی ٹی وی چینل کے پروگرام ’دس ویک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کے تیزی سے پوری ملک پر قبضے کی بجائے ملک میں طویل خانہ جنگی کا زیادہ امکان ہے۔ وہ بہت ہوشیار ہیں اور وہ کابل پر زیادہ حملے بھی نہیں کر رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان جمعے سے لے کر اب تک پانچ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں شہر قندوز ہے۔ طالبان نے 2015 میں کچھ عرصے کے لیے اس پر قبضہ کیا تھا۔
اس کے اگلے سال بھی انہوں نے کوشش کی لیکن وہ طویل عرصے تک اس شہر پر کنٹرول برقرار نہیں رکھ پائے تھے۔
کروکر کے مطابق ’وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا ایک مقصد خوف اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنا ہے، جس میں وہ بہترین طریقے سے کامیاب رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ایسے حالات نہیں دیکھ رہے جس میں امریکی فوجیوں کو افغانستان واپس بھیجنا پڑے۔
’صدر بائیڈن نے یہ واضح کر دیا ہے۔ ہم انخلا کر رہے ہیں اور واپس نہیں آ رہے۔‘