فوجیوں پر چاردیواری کے تقدس کی پامالی کا الزام، وزیرستان میں بےچینی

فوجیوں پر مقامیوں کے گھروں میں گھسنے کے الزام کے بعد پی ٹی ایم بھی میدان میں آ گئی ہے تاہم وہ اب تک عوام کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔

فائل فوٹو: اے پی پی

شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے خاتمے کے بعد متاثرین کی واپسی کے ساتھ ساتھ  پاک فوج نے پورے وزیرستان میں سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

سرچ آپریشن کے دوران حکومتی فورسز کے اہلکار مختلف گھروں سے درجنوں لوگوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے اور بیسوں گھروں سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔

تقریباً پانچ مہینے پہلے خیسورہ کے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران حیات خان نامی بچے کے گھر سے ان  کے والد جلات خان اور بھائی عادل خان کو گرفتار کر کے لے گئے، مگر حکومتی فورسز کے چند اہلکاروں نے ان کے گھر کا آنا جانا نہیں چھوڑا اور بار بار ان کے گھر کے چکر لگاتے رہتے تھے۔   

خیسورہ میں ہوا کیا تھا؟

خیسورہ واقعے کی حقیقت حیات خان کے والد اور بھائی کے گرفتاری کے ایک ماہ بعد اس وقت سامنے آئی جب داوڑ قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نوراسلام نے حیات خان نامی لڑکے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جس میں بچے نے الزام لگایا کہ فوجی اہلکاروں نے ان کے گھر میں داخل ہو کر صحن میں چارپائی بچھائی اور خواتین کو اپنے ساتھ بٹھانے کی کوشش کی۔

اس کے بعد بچے کی ماں نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ کئی مرتبہ سکیورٹی اہلکار ان کے گھر میں رات گزارنے کی غرض سے گھسنے کی کوشش کی ہے لیکن مزاحمت اور انکار کے باعث انہیں واپس جانا پڑا۔ حیات خان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما میدان میں کود پڑے اور خیسورہ کے مقام پر ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک جلسہ عام کیا اور حیات خان کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ اس کے بعد سیاسی اور قومی جرگوں کے لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔

عوام دو جرگوں میں منقسم

اتمانزئی کے ملک و قومی مشر دو جرگوں میں تقسیم ہونے لگے۔ ایک جرگہ پختون تحفظ موومنٹ کا ساتھ دینے لگا اور دوسرے جرگے نے آرمی کے موقف کو اپنایا۔ بعد میں آرمی کا موقف اپنانے والوں میں سے کچھ ملک قبلہ تبدیل کر کے پحتون تحفظ موومنٹ کا ساتھ دینے والے جرگے میں شامل ہو گئے۔ اس طرح جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر جو ڈیرہ اسماعیل میں گوڈ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والے ادریس نامی طالب علم کے واقعے کے بعد متحرک ہو گئے جس میں شمالی اور جنوبی وزیرستان دونوں قبائلی علاقوں کے لوگ شامل تھے۔

ڈیرہ اسماعیل میں موجود اس جرگے نے شمالی وزیرستان کے اتمانزئی وزیر اور جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیروں کو اکٹھا کر کے حکومت کے حامی طالبان کمانڈر مصباح کے دفتر اور گاڑی کو آگ لگا دی جس کے بعد سے وہ جرگہ ایک منظم شکل میں موجود رہا اورخیسورہ واقعے پر پختون تحفظ موومنٹ کے حامی جرگے کا ساتھ دیا۔

ڈیرہ اسمعیل خان سے خیسورہ واقعے کے لیے ایک قافلے کی شکل میں شمالی وزیرستان پہنچ گئے جہاں پہلے سے پحتون تحفظ موومنٹ کے رضاکاروں نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا تھا۔ اس موقعے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مشترکہ جرگے نے فیصلہ دیا کہ حکومتی فورسز کے اہلکار واقعی خیسورہ میں کم سن حیات خان کے گھر میں داخل ہو گئے تھے اور ان کی بےعزتی کی تھی، جو قبائلی روایات کے خلاف اور بلاجواز اقدام تھا۔

دونوں اقوام کے جرگے نے اعلان کیا کہ اتمانزئی اور احمدزئی وزیر پر مشتمل 18 ہزار افراد پر مشتمل لشکر تشکیل دے گا اور اس واقعے کو دبانے اور حکومتی اہلکاروں کا ساتھ دینے والے ملکوں کے گھروں کو آگ لگا دی جائی گی۔

معافی کون مانگے گا؟

اتمانزئی اور احمدزئی وزیر قبائل کے مشترکہ جرگے نے ایک بڑے جلسے میں یہ اعلان کیا کہ حکومت کے حامی ملکوں کے گھر جلانے، سزا دینے یا معاف کرنے کا فیصلہ لشکر کریں گے۔ اس کے ساتھ پاک فوج اور واقعے کے ذمہ دار اور حکومتی اہلکار جرگے کے سامنے متاثرہ خاندان سے معافی مانگیں گے جس کو مقامی رواج کے مطابق ’ننواتے‘ کہا جاتا ہے۔’

جرگے نے کہا کہ اگر وہ معاف نہیں مانگیں گے تو پھر دیگر قبائل سر جوڑ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

لیکن اس کے بعد ہوا کیا کہ عملی طور پر کچھ خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔ نہ کوئی کمیٹی بنی اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل طے کیا گیا اور جلسے کے بعد منتشر ہوگئے۔

واضح رہے کہ وزیرستان میں طالبان کے آنے کے بعد قبائلی جرگے غیر موثر ہو چکے ہیں، اور اب ان میں وہ دم خم نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ حالیہ دور کے اکثر جرگوں میں لوگ انتظامیہ کو خوش کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے جرگوں میں شامل ہوتے ہیں۔

فوج کی یقین دہانی

گذشتہ اتوار کو سیون ڈویژن کے جی او سی میجر جنرل ممتاز حُسین نے خیسورہ شمالی وزیرستان میں واقع متاثرہ خاندان کے گھر کا دورہ کیا جس کے ساتھ شمالی وزیرستان کے اتمانزئی وزیر قبائل کے درجنوں قبائل ملک بھی ساتھ تھے۔ اس موقعے پر میجر جنرل ممتاز حُسین نے کہا کہ ائندہ کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران آرمی کی خواتین اہلکار بھی حصہ لیں گے، قبائلی رسم و رواج کا خاص خیال رکھا جائے گا اورچادر اور چاردیواری کا تحفظ ملحوظ رکھا جائے گا۔

اس موقعے پر میجر جنرل ممتاز حسین اور قبائل ملکوں نے مشترکہ طور پر اس بات پر دعا کی کہ اس کے بعد حیات خان کے باب کو بند کر دیا گیا ہے۔

حیات خان کے ایک قریب رشتہ دار مُراد خان نے بتایا کہ 2018 کے الیکشن میں مُحسن داوڑ کی جیت پختون تحفظ موومنٹ کی آواز کا اہم کردار تھا حالانکہ شمالی وزیرستان میں داوڑ قبائل وزیر قبائل کے مقابلے میں دو تہائی اکثریت سے آباد ہیں۔

پی ٹی ایم کی جانب سے واقعے کو زندہ رکھنے کی کوشش

مُراد خان کے مطابق مُحسن داوڑ کی جیت کے بعد وزیر قبائل  اور داوڑ قبائل کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوا تھا اور خیسورہ واقعہ وزیر قبائل کو ساتھ ملانے کی کوشش ہے اور جس لڑکے نے ویڈیو بنائی ہے ان کا تعلق داوڑ قبائل سے ہے، لیکن آرمی کے سرچ آپریشن میں اہلکار صرف حیات خان کے گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ سینکڑوں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوئے ہیں۔

 بہر حال جو بھی ہے پختون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس باب کو بند نہیں ہونے دیں گے اور ہر صورت میں اس معاملے کو زندہ رکھیں گے۔ البتہ وہ اتمانزئی اور احمدزئی وزیروں کے قومی جرگے کو اپنے ساتھ آگے لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ جرگے کے فیصلے کے مطابق سرتابی کرنے والوں میں سے کسی کو سزا دی جا سکے گی۔

  

 

  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان