ترکی کی لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپ دھکیلنے کی پھر دھمکی

ترک اردوغان نے کہا کہ اگر دوسرے ملکوں نے شام میں’محفوظ علاقے‘کے قیام کے لیے ان کی تجاویز کی حمایت نہ کی تو وہ یورپ میں سیاسی پناہ تلاش کرنے والوں کے لیے’دروازے کھول دیں گے۔‘

اس وقت ترکی میں 36 لاکھ شامی پناہ گزین موجود ہیں(اے ایف پی)

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ اگر دوسرے ملکوں نے شام میں’محفوظ علاقے‘ کے قیام کے لیے ان کی تجاویز کی حمایت نہ کی تو وہ لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپ بھیج دیں گے۔

ترک صدر نے ہفتے کو اپنی دھمکی دہراتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر یورپی ممالک پناہ گزینوں کو شمال مشرقی شام میں دوبارہ آباد کرنے کے منصوبوں کی حمایت میں ناکام رہے تو وہ یورپ میں سیاسی پناہ تلاش کرنے والوں کے لیے’دروازے کھول دیں گے۔‘

اس وقت ترکی میں 36 لاکھ شامی پناہ گزین موجود ہیں، جو اپنے ملک میں جنگ کے بعد وہاں سے فرار ہو کر ترکی پہنچے تھے۔ ترکی ان میں سے 20 لاکھ تک کو سرحد پار واپس آباد کرنا چاہتا ہے۔

اکتوبر کے دوران اردوغان نے یورپی رہنماؤں کو بتایا تھا کہ وہ ترکی کے شمالی شام میں فوجی آپریشن پر عالمی تنقید کے جواب میں’36 لاکھ پناہ گزینوں کو یورپ جانے والے راستے پر ڈال دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترک صدر نے مزید کہا کہ ہفتے کو ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے تحت اگر روس نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو ترکی وائی جی پی(پیپلز پروٹیکشن یونٹ) کرد ملیشیا کا اپنی سرحد کے قریبی علاقے سے صفایا کر دے گا۔

منگل کو اردوغان اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت روسی ملٹری پولیس اور شامی بارڈر گارڈز کو 19 میل کے سرحدی علاقے سے کرد ملیشیا کے جنگجوؤں کو نکالنا ہے۔ ترکی ان جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

اس ہفتے انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے ترکی پر الزام لگایا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کو شام کے شمال میں’جنگ زدہ علاقے‘میں زبردستی واپس دھکیل کر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ترک حکام نے متعدد شامی شہریوں کو’ناجائز‘طور پر حراست میں لے کر انہیں شام کے سرحدی صوبے ادلب ملک بدر کر دیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا